سن 2003 سے امریکی محکمہ خارجہ اور بیورو آف ایجوکیشن اینڈ کلچرل افیئرز کے زیر اہتمام کینڈی لوگر یوتھ ایکس چینج پروگرام کے تحت ہر سال پاکستان سے ایک سو سے زیادہ ہائی اسکولوں کے طالب علم یہاں امریکی ہائی اسکولوں میں ایک سال کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے منتخب ہو کر آتے ہیں جن کی میز بانی امریکی گھرانے کرتے ہیں ا ور انہیں اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح پورے سال اپنے گھر اور اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں۔
اس ایک سال کے دوران یہ پاکستانی طالب علم امریکی زندگی اور امریکی ثقافت کا براہ راست مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو پاکستان، پاکستانی زندگی اور پاکستانی ثقافت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بارے میں امریکہ میں پھیلے مختلف منفی تاثرات دور کرنے اور پاکستان کی ایک درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ گویا ایک ثقافتی سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔
کینڈی لوگر یوتھ ایکس چینج پروگرام کے تحت پاکستان کے 105 طالب علموں کا ایک گروپ امریکہ کی مختلف ریاستوں کے ہائی اسکولوں میں اپنا ایکس چینج سال مکمل کر کے جون میں وطن لوٹ رہا ہے۔ اس گروپ کے کچھ نمائندہ طالب علموں نے گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ کے پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں شرکت کی۔
یہ طالب علم تھے لاہور کے محمد ہارون، کراچی کی رباب علی ، ایبٹ آباد کی سمعیہ مقصود اور اٹک کے طلحہ حسان سلیم ۔ انہوں نے ایکس چینج پروگرام کے بارے میں اور اس میں اپلائی کرنے کے طریقے پر روشنی ڈالی اور یہ بتایا کہ یہ پروگرام کس طرح پاکستانی طالب علموں کو امریکی تعلیمی نظام اور امریکی زندگی کے مختلف پہلووں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں اور ان کی سوچ کے انداز میں مثبت تبدیلی لا رہا ہے۔
طلحہ حسان نے بتایا کہ انہوں نے ساؤتھ کیرولائنا میں گزارے ہوئے اپنے تعلیمی سال کے دوران اسکو ل میں جہاں دوسری کلچرل اور رضاکارانہ سر گرمیوں میں حصہ لیا وہاں انہوں نے اپنے اسکول میں428 طالب علموں کی اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی جس کے بعد وہ کسی امریکی کالج میں ایک سیمسٹر کے لیے ایک اسکالر شپ حاصل کرنے کے اہل ہو چکے ہیں۔
سمعیہ مقصود نے کہا کہ کسی روائتی پاکستانی گھرانے کی ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی کےلیے کسی اجنبی ملک میں کسی اجنبی گھرانے کے ساتھ کسی اجنبی انداز زندگی کے ساتھ ایک سال تک گھر کے ایک فرد کی طرح رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ورجینیا میں ان کے میزبان گھرانے نے انہیں انتہائی پیار محبت سے اپنے ساتھ رکھا اور ہر قدم پر ہر مسئلے کو حل کرنے میں مدد کر کے ان کی زندگی کو آسان بنایا۔
محمد ہارون نے بتایا کہ انہوں نےآئیوا میں اپنے قیام کے دوران اپنے علاقے کے کمیونٹی سنٹر میں والنٹیر ورک کیا اور بے گھر لوگوں کے لیے اپنے ہاتھ سے سوئی دھاگے کی مدد سے پچاس سے زیادہ کمبل بنائے جو ان کے لیے ایک بہت مشکل کام تھا لیکن انہوں نے روزانہ اس کام پر لگ بھگ تین گھنٹے صرف کیے۔
رباب علی کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں آکر پڑھنا اور ایک سال گزارتے ہوئے انہیں ایسا لگا جیسے ان کا کوئی خواب پورا ہو گیا ہو ۔ ان کی ہوسٹ فیملی نے انہیں وہ جگہیں دکھائیں جن کے بارے میں انہوں نے کبھی کچھ سنا بھی نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے انٹر نیشنل ویک میں بہت سی پریزنٹیشن دیں اور پاکستان کے بارے میں بہت سے منفی تاثر دور کی۔
یوتھ ایکس چینج پروگرام کے تحت امریکہ میں ایک سال گزارنےکے بعد جون میں پاکستان واپس جانے والے طالبعلموں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان واپس جا کر امریکہ کے لیے بھی ایک سفیر کی طرح کام کریں گے اور پاکستان میں امریکہ کے بارے میں پھیلے ہوئے منفی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے امریکہ آنے والے یوتھ ایکس چینج پروگرام کے شرکا ء امریکہ میں گزارے ہوئے ایک سال کو اپنی زندگی کا یاد گار سال قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں یہ ایک زندگی میں ایک سال نہیں بلکہ ایک سال میں ایک زندگی کا سال ہے۔