افغانستان کے شمالی حصے میں ہونے والی تازہ لڑائیوں نے دارالحکومت کابل اور کئی دوسرے صوبوں میں بجلی کی فراہمی معطل کر دی ہے۔یہ تین ہفتوں سے بھی کم مدت میں دوسری بار بجلی کا سلسلہ منقطع ہونے کا واقعہ ہے۔
یہ لڑائیاں ایک ایسے موقع پر شروع ہوئی ہیں جب ملک کے آزاد الیکشن کمشن نے 20 اکتوبر کو طے شدہ پارلیمانی اور ڈسٹرکٹ کونسلوں کے انتخابات کے لیے طویل عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی ووٹروں کی رجسٹریشن کا آغاز کیا ہے۔
پولیس کے ایک صوبائی ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بجلی کے محکمے کے ماہرین کی ایک ٹیم بغلان صوبے میں پہنچ گئی ہے جہاں وہ نقصانات کا جائزہ لے کر مرمت کا کام شروع کرے گی۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ شدید جھڑپوں کے باعث ٹیمیں دوشی کے علاقے میں نہیں پہنچ پا رہیں۔
عہدے داروں نے بتایا ہے کہ رات بھرہونے والوں جھڑپوں کے نتیجے میں ایک بڑے علاقے میں بجلی کے کھمبے گر گئے جس سے 50 لاکھ آبادی کے شہر کابل سمیت ملک کا ایک بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا۔
کابل کے تاجروں اور کئی گھروں کے مالکان نے کہا ہے کہ وہ بجلی کی فراہمی کے لیے پرائیویٹ جنریٹروں پر انحصار کر رہے ہیں۔
صوبے بغلان سے گزرنے والی بجلی کی ٹرانشمن لائنیں تاجکستان اور ازبکستان سے تقریباً 300 میگا واٹ بجلی افغانستان کو فراہم کرتی ہیں۔
افغانستان کے کئی علاقوں پر طالبان کا کنٹرول یا اثرورسوخ موجود ہیں اور وہ اکثر اوقات حکومتی تنصیبات اور اہل کاروں کو اپنا ہدف بناتے رہتے ہیں۔
پچھلےمہینے شورش پسندوں نے بغلان کے علاقے قلعہ گئی میں بجلی کے مرکزی ٹاور گرا کر کابل کے لیے بجلی کی فراہمی کاٹ دی تھی جسے کئی روز کے بعد بحال کیا جا سکا تھا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ کارروائی اس لیے کرنی پڑی کیونکہ حکومت نے طالبان کے قبضے کے علاقوں میں بجلی کی فراہمی روک دی تھی۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مغربی شہر فرح میں رات بھر جاری رہنے والی جھڑپوں میں کم ازکم 7 افغان فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے ۔
صدر اشرف غنی نے ہفتے کے روز طالبان کو امن مذاکرات کی اپنی پیش کش کا ایک بار پھر اعادہ کرتے ہوئے انہیں ایک سیاسی گروپ کے طور پر پارلیمانی انتخابات کے لیے رجسٹر کرانے کی دعوت دی۔
طالبان نے ابھی تک صدر غنی کی پیش کش پر کوئی اعلانیہ درعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ ملک بھر میں اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔