اسرائیل: شراکت اقتدار کا معاہدہ، نیتن یاہو نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور حزب مخالف رہنما بینی گینز (فائل فوٹو)

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کو با لآخر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ڈیڑھ سال کے سیاسی ڈیڈ لاک کے بعد ملک میں یونٹی حکومت قائم ہوگئی ہے۔

نئے سیاسی معاہدے کے مطابق نیتن یاہو ڈیڑھ سال بعد اپنے عہدے سے دست کش ہو جائیں گے اور اپنی اتحادی جماعت کے سربراہ اور سابق حریف بینی گینٹز کو یہ ذمہ داری سونپ دیں گے۔

پچھلے ہفتے سپریم کورٹ نے نیتن یاہو کو نئی حکومت بنانے کی اجازت دے دی تھی۔

پچھلے سال ان پر رشوت ستانی، فراڈ اور بد عہدی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے میڈیا سے فائدہ اٹھانے کے لیے میڈیا مالکان کو استعمال کیا اور انہیں قیمتی تحفے دیے۔

نیتن یاہو نے فرد جرم سے انکار کیا اور کہا کہ وہ سیاسی کردار کشی کا نشانہ بنے ہیں۔ عدالت میں ان کا مقدمہ 24 مئی سے شروع ہو گا۔

اسرائیلی قانون کے تحت اگر کسی وزیر پر فرد جرم عائد ہو جائے تو اسے اپنا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے، لیکن اس میں یہ طے نہیں کیا گیا کہ اس دائرے میں وزیر اعظم آتے ہیں یا نہیں، اور کیا وہ عدالت کی کارروائی جاری رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے عہدے پر بھی قائم رہ سکتے ہیں۔

دوسری طرف سیاسی محاذ پر نیتن یاہو حزب اختلاف کے ساتھ اقتدار میں شراکت کر رہے ہیں۔ بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے رہنما بینی گینز کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو ڈیڑھ سال اس عہدے پر رہیں گے اور اپنے نئے شراکت دار کو یہ ذمہ داری سونپ دیں گے۔

اس معاہدے کے مخالفین کہتے ہیں باری باری وزیر اعظم بننا غیر قانونی ہے۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں 36 وزرا شامل ہوں گے جو ایک ریکارڈ ہے۔

اس معاہدے سے قبل تین بار بے نتیجہ انتخابات ہوئے۔ کسی بھی پارٹی کو ٖفیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہو سکی۔

حزب مخالف کے رہنما بینی گینز پہلے اقتدار میں شراکت داری کے شدید مخالف تھے مگر حال ہی میں وہ اس موقف سے الگ ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے وبائی مرض کے دوران چوتھا انتخاب ملک کے حق میں نہیں ہو گا۔