اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف الزامات پر سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔ دو روزہ سماعت کے دوران فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا وزیرِ اعظم پر لگائے گئے مجرمانہ الزامات اُنہیں نئی حکومت تشکیل دینے کا اہل قرار دیتے ہیں یا نہیں۔
ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے والے بنیامین نیتن یاہو پر پچھلے سال نومبر میں رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
نیتن یاہو ان الزامات کی صحت سے انکار کرتے رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اگر سپریم کورٹ سے نیتن یاہو کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو ایک بار پھر سے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ جو کہ اسرائیل میں پچھلے سال اپریل کے بعد ہونے والے چوتھے عام انتخابات ہوں گے۔
نیتن یاہو اور ان کے حریف بینی گینتز کے درمیان حکومت سازی کے لیے پچھلے ماہ ہی ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے مطابق نیتن یاہو اٹھارہ ماہ تک ملک کے سربراہ ہوں گے جس کے بعد حکومت بینی گینتز کو سپرد کردی جائے گی۔
فریقین کے درمیان طے شدہ معاہدے کو پارلیمنٹ میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم متعدد گروپس کی طرف سے اس معاہدے کو منسوخ کرنے اور نیتن یاہو کو وزیرِ اعظم بننے سے روکنے سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
ان درخواستوں میں حزبِ اختلاف اور جمہوریت پر نظر رکھنے والے اداروں کی درخواستیں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست پر اٹارنی جنرل آویچائے مینڈلبلٹ نے عدالت سے کہا ہے کہ نیتن یاہو کو نااہل قرار دینے کے لیے مناسب قانونی گنجائش موجود نہیں ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق سپریم کورٹ میں گیارہ ججز نے کرونا وائرس کے سبب احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف مقدمے کی سماعت کی۔
اس موقع پر عدالت سے باہر سماجی دوری اختیار کرنے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی طرف سے حکومتی کرپشن کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
کچھ اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالت نیتن یاہو کو نئی حکومت کی سربراہی کرنے سے نہیں روکے گی۔
اس کیس کا فیصلہ ممکنہ طور پر جمعرات کو آنے کی توقع ہے جس کے بعد 24 مئی سے نیتن یاہو کا ٹرائل شروع ہو گا۔
اسرائیلی قانون کے مطابق وزیرِ اعظم پر فرد جرم عائد ہونے کے باوجود جب تک حتمی فیصلہ نہیں آجاتا۔ وزیرِ اعظم کو عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چند ایسی قانونی مثالیں موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں الزامات کے بعد وزیرِ اعظم کو اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی جماعت حکومت سازی کے لیے درکار 61 نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ایک سال کے دوران ہونے والے یہ تیسرے انتخابات تھے۔