پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز کی طرف سے شریعت کے نفاذ کے لیے مہم کا آغاز کرنے کے بعد جمعہ کو اسلام آباد میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات دیکھنے میں آئے۔
لال مسجد کے اردگرد نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل ہی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔
عبدالعزیز اگرچہ اب لال مسجد کے خطیب نہیں ہیں لیکن وہ اکثر یہاں جمعہ کی نماز کی امامت کرتے ہیں۔
نماز کی ادائیگی کے بعد اگرچہ عبدالعزیز کے حامی بڑی تعداد میں مسجد میں موجود تھے لیکن کوئی بڑی ریلی نہیں نکالی گئی۔
پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آتی رہیں کہ انتظامیہ نے مولانا عبد العزیز کو نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کیا گیا۔
لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز کی طرف سے ماضی میں بھی کئی متنازع بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کی لال مسجد اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنی جب 2007ء میں اس مسجد سے ملحقہ مدرسے کے طلبا و طالبات نے نہ صرف پولیس کے اہلکاروں کو زدو کوب کیا بلکہ چند غیر ملکی (چینی شہری) باشندوں کو مبینہ طور پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے یرغمال بنایا۔
جولائی 2007ء میں اس مدرسے کے خلاف بھرپور آپریشن کیا گیا جس میں کم ازکم ایک سو افراد ہلاک ہوئے جب کہ فوج کے ایک کرنل سمیت دس اہلکار بھی مارے گئے۔
حکام کے مطابق اس مدرسے میں بڑی مقدار میں اسلحہ موجود تھا جب کہ یہاں چند غیر ملکی شدت پسند بھی موجود تھے۔
اس آپریشن میں مولانا عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی عبدالرشید غازی بھی ہلاک ہو گئے تھے جب کہ خود انھیں فرار ہوتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور میں اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک بھر میں عسکریت پسندوں اور اُن کے معاونین کے خلاف کارروائی شروع کی جا چکی ہے اور حکومت کی طرف سے بارہا یہ اعلانات کیے جاتے رہے ہیں کہ کسی کو بدامنی نہیں پھیلانے دی جائے گی۔