ایران کے صدر حسن روحانی نے منگل کے روز کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے پر عمل درآمد کو توجیح دیتا ہے لیکن اگر امریکہ نے دھمکیاں اور پابندیاں جاری رکھیں تو ایران اپنی جوہری سرگرمیاں اس سے زیادہ رفتار سے دوبارہ شروع کر دے گا جس پر وہ معاہدہ ہونے سے پہلے کام کررہا تھا۔
پارلیمنٹ کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے، جسے ٹیلی وژن پر بھی دکھایا گیا، صدر روحانی نے کہا کہ امریکہ ایک اچھا شراکت دار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ دھمکیوں کی زبان استعمال کرنے اور پابندیاں لگانے کی سمت واپس جا رہے ہیں، وہ اپنے ماضی کے واہموں اور فریب نظر کے اسیر ہیں۔ وہ خود کو امن کے فوائد سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔
ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ان نئی پابندیوں پر اعتراض کیا ہے جس پر اس مہینے کے شروع میں انہوں نے دستخط کیے تھے۔ اس حکم نامے میں ان لوگوں پر پابندیاں نافذ کی گئی تھیں جو ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو کسی بھی حوالے سے مدد فراہم کر رہے ہیں۔
ایران اور امریکہ دونوں ہی کا یہ کہنا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کی روح کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام پر معاہدہ طویل مذاكرات کے بعد طے پایا تھا۔ اس معاہدے میں امریکہ کے ساتھ برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی نے حصہ لیا تھا۔
معاہدہ طے پانے کے بعد ایران پر کچھ پابندیاں نرم کر دی گئیں تھیں۔
معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری افزودگی کی سطح کم کر دی تھی کیونکہ مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ ایران کا دعویٰ تھا کہ اس کا پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
امریکہ نے ایران کے میزائل تجربات پر اعتراض کیا ہے لیکن جوہری معاہدے کے مسودے میں یہ چیز شامل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک قرار داد میں جوہری معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایران ایسے تجربات سے اجتناب کرے، تاہم میزائل تجربات پر کوئی مخصوص پابندی نہیں لگائی گئی۔