بھارتی کشمیر میں اغوا کے بعد نوجوان کا سر قلم کردیا گیا

فائل فوٹو

نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک نوجوان کو اس کے گھر سے بندوق کی نوک پر اغوا کرنے کے بعد اس کا سر قلم کردیا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ 25 سالہ منظور احمد بٹ کی بغیر سر کے نعش شورش زدہ ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر سے 35 کلو میٹر شمال میں واقع حاجن علاقے میں سیبوں کے ایک باغ میں ملی۔ یہ جگہ مقتول کے گھر سے چند میل کے فاصلے پر ہے ۔ جہاں سے مسلح افراد نے اسے اور اس کے والد کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو اغوا کیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کیے گیے نوجوان کا والد عبد الغفار اغوا کاروں کے چنگل سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کوشش کے دوران وہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے زخمی ہو گیا۔

یہ واقعہ اسی علاقے میں مسلح افراد کے ہاتھوں ایک اور شہری منتظر احمد پرے کے اس کے سسرال سے اغوا اور پھر قتل کیے جانے کے دو دن بعد پیش آیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پہلے واقعے میں مسلح افراد نے نجی گھر میں زبردستی گھس کر افراد خانہ پر تیز دھار ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا جس سے ایک خاتون سمیت تین افراد زخمی ہوئے تھے۔

پولیس نے دونوں واقعات کے لیے لشکرِ طیبہ کو جسے امریکہ اور بھارت دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ لشکر طیبہ نے تا حال اس الزام پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ۔

وائس آف امریکہ کے اس استفسار پر کہ اغوا اور قتل کے پہلے واقعے کے بعد پولیس دوسرے واقعے کو روکنے میں کیوں ناکام ہوئی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس سربراہ شیش پال وید نے کہا۔

’پولیس کی پچاس آنکھیں تو نہیں ہیں کہ یہ دیکھے کہ ملی ٹنٹ( دہشت گرد) کہاں کہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ لوگوں نے انہیں کہاں پناہ دے رکھی ہے۔ اگر کسی شہری کو اغوا کرکے لے جایا جاتا ہے اور کہاں لے جایا جاتا ہے یہ ملی ٹنٹ( دہشت گرد) جانیں اور اس علاقے کے لوگ جہاں ایسا واقعہ پیش آتا ہے۔ جموں کشمیر کی پولیس اپنی طرف سے پوری کوشش کر سکتی ہے ۔ لیکن اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے اس کا ادراک لوگوں کو کرنا ہے‘۔

ایک اور خبر کے مطابق مسلم اکثریتی وادئ کشمیر اور جموں خطے کی چناب وادی کے بعض علاقوں میں، جن میں بانہال کا قصبہ بھی شامل ہے، بھارتی حفاظتی دستوں کی حالیہ کارروائیوں میں 13عسکریت پسندوں اور پانچ شہریوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔

جمعے کے روز کی جانے والی ہڑتال کے دوران، جس کی اپیل تاجروں کی ایک انجمن نے کی تھی وادئ کشمیر کے متعدد علاقوں میں مشتعل نوجوانوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ غم و غصے سے بپھرے نوجوانوں اور نو عمر لڑکوں نے پولیس اور نیم فرجی دستوں پر سنگ باری کی ۔ حفاظتی دستوں نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والوں پر اشک آور گیس کے گولے پھینکے۔ کئی افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کہتی ہے کہ زخمیوں میں اس کا ایک تھانیدار بھی شامل ہے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ حفاظتی دستوں کی تازہ کارروائیوں کے دوران ضلع پلوامہ میں ایک عسکریت پسند کو ہلاک اور ضلع کپوارہ میں ایک کو گرفتار کیا گیا۔

ادھر نئی دہلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے تین بار وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ سے ملاقات کرکےان کے بقول اُن کی توجہ ریاست کے گھمبیر حالات بالخصوص امن وامان کی تیزی کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورت حال کی طرف مبذول کرائی۔

فاروق عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے بھارتی وزیرِ داخلہ پر زور دیا کہ کشمیر میں معصوم اور قیمتی جانوں کے اتلاف کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کُن اقدامات کیے جائیں اور وادئ کشمیر میں پائی جانے والی وسیع پیمانے کی اجنبیت اور طلسم ربایی کو دور کرنے کے لیے پائیدار، موثر اور سنجیدہ سیاسی پہل کی جائے۔