افغانستان کے طالبان نے کہا ہےکہ انہوں نے 200 مشتبہ عسکریت پسندوں کو پاکستان کے خلاف سرحد پار مہلک حملے کرنے پر گرفتار کر لیا ہے اور دہشت گرد سر گرمیوں کےخاتمےکےلیے دیگرٹھوس اقدامات کو نافذ کر دیا ہے ۔ وی او اے کو یہ معلومات ان معاملات سے واقف پاکستانی عہدے داروں سے حاصل ہوئی ہیں۔
افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان نے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان ، یا ٹی ٹی پی کے خلاف پکڑ دھکڑ کی تفصیلات گزشتہ ہفتے کابل میں اسلام آباد کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ اپنی میزبانی میں ہونے والے دو طرفہ مذاکرات کےدوران فراہم کیں ۔
ان مذاکرات سےدو ہفتے قبل، بھاری طور پر مسلح سینکڑوں عسکریت پسندوں نے پاکستان کے شمالی سرحدی ضلع چترال میں دو پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں پر حملہ کیا تھا۔ چھ ستمبر کو ہونے والے اس حملے میں چار فوجی اور 12 حملہ آور ہلاک ہوئےتھے۔ ٹی ٹی پی نے اس حملےکی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ایک عہدے دار نے جسے میڈیا کے ساتھ رابطے کا اختیار نہیں تھا ، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان نےچترال پر حملے سے واپس آنے والے ٹی ٹی پی کے 200 ارکان کو گرفتار کر لیا ہے اور وہ سب اب جیل میں ہیں ۔
اس نے مزید بتایا کہ افغان ڈی فیکٹو اتھارٹی کی جانب سے، ٹی ٹی پی کے ارکان کو پاکستان کی سرحد سے دور رکھنے کے لئے انہیں کسی اور مقام پر منتقل کرنے کی کارروائی جاری ہے۔
تاہم عہدے دار نے کہا کہ ، "ہمیں کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل ان اقدامات کے اثرات کا انتظار کرنا چاہئے ۔ انہیں ان اقدامات کو مستحکم کرنے کےلیے کچھ وقت دینا ہو گا۔"
طالبان نے ٹی ٹی پی کی رپورٹ کی گئی پکڑ دھکڑ پر فوری طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔
SEE ALSO: سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں: نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑپیر کے روز طالبان کے مرکزی ترجمان نے ایک بار پھر کہا کہ اس کی حکومت کسی کو بھی پاکستان کے خلاف ا فغان سرزمین کےاستعمال کی اجازت نہیں دیتی ۔
طالبان کے سرکاری ٹیلی وژن پرنشر ہونے والے تبصروں میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ ہماری بیان کردہ پالیسی ہے ۔ یہ امن اور مصالحت کے فروغ کےلیے افغانستان کے قومی مفاد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
مجاہد نے کہا کہ ہم پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کے مسائل میں صرف اپنی استعداد کے مطابق ہی مدد کر سکتے ہیں ۔ پاکستان بھی جانتا ہے کہ ہم اس سلسلے میں کس حد تک مدد کر سکتے ہیں ہم سرحدوں پر ان کی مدد نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ ان کی ذمہ داری ہے ۔
کابل میں پاکستان کے وفد کی قیادت افغانستان سے متعلق پاکستان کے خصوصی نمائندے، آصف درانی نے کی تھی جب کہ سینئیر فوجی عہدے دار بھی ان کے ہمراہ تھے ۔
اس وقت اسلام آباد میں عہدے داروں نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کی ٹیم کے ساتھ اپنی تفصیلی گفتگو کو حوصلہ افز ا قرار دیا تھا۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سےپیر کےروز ایک ترک ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران سوال کیاگیا کہ آیا طالبان افغان سر زمین پر ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے خاتمے کے اپنے ارادوں میں مخلص ہیں ؟
ان کا جواب تھا کہ ہم یہاں اس ڈی فیکٹو حکومت کے ارادوں کو ’جج‘ کرنے نہیں آئے ہیں ۔
پاکستانی طالبان کے نام سے معروف ٹی ٹی پی کو پاکستان اور امریکہ نے عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ۔
یہ عسکریت پسند گروپ 2007 میں پاکستان کے سر حدی علاقوں میں ابھر کر سامنے آیا تھا ۔ لگ بھگ بیس سال تک ملک میں رہنے کے بعد اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا تک اس کی افغان طالبان کے ساتھ وابستگی تھی اور امریکی قیادت والے نیٹو کے فوجیوں پر شورش پسند حملوں میں ان کی مدد کرتا تھا ۔
SEE ALSO: طالبان حکومت کا کیمروں کی تنصیب کا منصوبہ، انسانی حقوق کے کارکنوں کو تشویشطالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے اپنی فورسز کو پاکستان کےخلاف سرحد پار حملوں سے منع کر دیا ہے اور انہیں حرام اور غیر اسلامی قرار دیا ہے۔
کابل میں حالیہ گفت وشنید سے واقف پاکستانی عہدےداروں نے وی او اے کو بتایا کہ اخوند زادہ نے افغان عوام کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کےساتھ کوئی تعاون نہ کریں اور نہ ہی اسےپاکستان کے خلاف اس کے نام نہاد جہاد کےلیے عطیات دیں ۔ انہوں نے عسکریت پسندوں کی افغانستان میں عطیات اکٹھے کرنے کی مہم پر پابندی لگا دی ہے۔
چترال میں ٹی ٹی پی کے حملے کے بعد پاکستانی عہدے دارو ں نے کہا کہ بیسیو ں افغان جنگجوؤں نے اس میں حصہ لیا تھا اور ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے کے لیے کابل حکام کو فوری طور پر شواہد فراہم کر دیے گئے تھے ۔
SEE ALSO: سیکیورٹی اور معاشی مسائل، انوار الحق کاکڑ کا طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم کو خطٹی ٹی پی کی ایک اندرونی کمیو نی کیشن بعد میں سوشل میڈیا پر ظاہر ہوئی جس میں اس نے اپنے جنگجوؤں کوخبردار کیا تھا کہ وہ اپنی صفوں میں افغان شہریوں کو بھرتی نہ کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنظیم طالبان حکومت کی جانب سے دباؤ میں ہے۔
اسلام آباد میں وی او اے کو اپنے اندازےسے آگا ہ کرتے ہوئے عہدے داروں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ طالبان شورش کے دوران خود سے منسلک ان گروپس سے شعوری طور پر دور ہو رہے ہیں جو اب افغانستان میں،بھتہ خوری ، اغوا برائے تاوان او ر دہشت گردی جیسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان رہنما جانتے ہیں کہ ان پر ان مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے کیوں کہ اس وقت ان کا ملک پر کنٹرول ہے اور اب جب وہ اپنی حکومت کو تسلیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ اب ان کا رویہ کسی شورش پسندتنظیم کی طرح نہیں ہے ۔