پاکستان کی معیشت کو درپیش چلینجز جاری ہیں اور اعدادو شمار کے مطابق ملک میں براہ راست سرمایہ کاری میں واضح کمی آئی ہے اور بیرونی ممالک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم میں گزشتہ سال کے مقابلے میں گیارہ مہینوں میں 3.7 بلین ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ دورے میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک کے چوبیس کروڑ صارفین پر مشتمل بڑی مارکیٹ میں کاروبارکرنے کی دعوت دی۔ اس ہفتے حکومت نے سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کے تحت فوج سمیت سرکاری ادارے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پرتوجہ دیں گے۔ حکومت نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں کئی بلین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کو ممکن بنائے گی۔
لیکن رپورٹس کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ پیٹرولیم کمپنی شیل نے وہاں اپنے حصص بیچنے کا اعلان کیا ہے جبکہ گاڑیاں بنانے والی ایک کمپنی نے برآمدات میں مشکلات کے باعث اپنے آپریشن بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے زوردیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی ہی سرمایہ کاری کے ذریعہ ملک کو گھمبیر معاشی مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ میں بسنے والے تارکین وطن اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام اور سازگار ماحول درکار ہوگا۔
خیال رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کی بڑی برینڈ کمپنیاں پاکستان کے روایتی شعبوں میں منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں جبکہ حالیہ سالوں میں پاکستانی نژاد ماہرین نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید شعبوں میں بھی کچھ کامیاب سرمایہ کاری کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کاروباری شخصیات نے کہا کہ پاکستانی امریکی، اپنےوطن کی ترقی میں حصہ لینے کے خواہاں ہیں ۔ لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان سیاسی عدم استحکام اور جمہوری اداروں کے فعال کردار میں فقدان کے وقت ایسے اقدامات اٹھانے کو تیار ہے جو سرمایہ کاری کو آسان بنا سکیں؟
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ اور پاکستان میں ریئل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ، دواسازی، ہاسپیٹیلیٹی، اسٹیل، توانائی اور دوسرے شعبوں میں کاروبار کرنے والے سرمایہ کار مصدق چغتائی کہتے ہیں کہ پاکستان کو دور رس اور اہم فیصلےکرنا ہوں گے تاکہ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان میں کون سی حکومت برسر اقتدار ہے ملک ، بین الااقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک موزوں اور پرکشش منزل بن جائے۔
اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک میں چند خاندانوں یا گروپوں کی اجارہ داری نہ اور ہر کاروبار کو پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع میسر ہوں ۔ مزید یہ کہ پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے ہم پلہ پوٹینشل رکھنے والے بنگلادیش، ویت نام، پرتگال اور میکسیکو جیسے ملکوں نے آخر کن پالیسیوں پر عمل کیا کہ وہ بزنس کے مراکز بن گئے۔
"سب سے پہلے تو یہ کہ پاکستان میں بزنس کے لیے توانائی سستے نرخ پر دستیاب ہونی چاہیے تاکہ سرمایہ کار بین الااقوامی مسابقت میں پیچھے نہ رہیں اور اشیا کی پیداوار اور مینوفیچکرنگ کی لاگت کم ے کم رہے۔ علاوہ ازیں ،پاکستان کو خام مال کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کرنا ہوں گی۔"
مصدق چغتائی کی نظر میں ایک اور اہم پہلو مشینری کی درآمد ی ڈیوٹی کو ختم کرنا ہے کیونکہ اس سے ملک میں بنائی گئی اشیا کی قیمتیں بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کر سکیں گی۔
"پاکستان کی معیشت کی بحالی کا دارومدار ملک میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے درجے کی مینوفیکچرنگ پر ہے لہذا ملک میں جدید مشینری کا استعمال ایک بڑی ترجیح ہونی چاہیے اور دوسال سے زیادہ پرانی مشینری کی در آمد پر پابندی ہونی چاہیے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
انور سندھو، امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان میں کاروبار چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں زراعت کے شعبے میں ایک کمپنی کے ذریعہ پانی کی بچت اور فصلوں کی تین سے آٹھ گنا پیداوار بڑھانے میں مددگارایک کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاسی استحکام اور کاروبار چلانے کی بنیادی سہولیات انتہائی ضروری ہیں جبکہ پاکستان کو قدرتی وسائل اور ہنرمند افراد یعنی ہیومن کیپیٹل وافر دستیاب ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسال قبل انہوں نے دو دیگر پاکستانی امریکیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں انرجی بارز، پروٹین بارز، سیریلز، چاکلیٹ بارز، مونگ پھلی اور بادام کا مکھن اور پاستا تیار کرنے کا کئی ملین ڈالرز کاکاروبار شروع کیا۔
"ایک تو ہمیں اس شعبے میں بہت سے مواقع نظر آئے کیونکہ پاکستان یہ تمام پروڈکٹس درآمد کرتا ہے ۔ پھریہ کہ ہم نے دو سال قبل ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری دیکھی، اس لیے ہم نے اپنے تجربے سے ملک کی معیشت میں اپنی طرف سے کچھ حصہ ڈالنے کی کوشش کی"۔
ان کے مطابق ، اس کاروبار سے سینکڑوں براہ راست اور ہزاروں بالواسطہ ملازمتوں کے مواقع پیداہونا تھے کیونکہ ان کی کمپنی نے ان پروڈکٹس کو پاکستان میں مارکیٹ کرنے کےعلاوہ وسطی ایشیا اور یورپی ممالک کو برآمد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔لیکن انور سندھو بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے مینوفیکچرنگ کے انفرا اسٹرکچر کا انتظام کیا اور مقامی طور پرماہر انجنیئرز کی مدد سے مشینری بھی تیار کرلی تو ملکی حالات خراب ہوگئے۔
"اب موجودہ سیاسی اور تجارتی صورتحال کی وجہ سے ہم نے پاکستان میں کاروبار روک دیا ہے کیونکہ ان پروڈکٹس کی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے مخصوص نامیاتی فوڈ کیمیکلز اور دیگر خام مال وغیرہ درآمد کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ "ہم صرف امید کرتے ہیں کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
یو ایس پاکستان انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے بانی صدیق شیخ نے پاکستان اور امریکہ میں کئی ٹریڈ فیئرز یعنی تجارتی میلے منقعد کیے ہیں جن کے ذریعہ ان کے مطابق پاکستان میں امریکی اور پاکستانی نژاد امریکی سرمایہ کاروں کی جانب سے لاکھوں ڈالر کا بزنس ممکن ہوا۔
گزشتہ چارعشروں سے امریکی ریاست ورجنییا میں مقیم صدیق شیخ، جو پیڑولیم کے کاروبار سے منسلک ہیں، کہتے ہیں کہ یوں تو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لامحدودامکانات ہیں لیکن ان کی دلچسپی تعلیم کے شعبے میں رہی ہے۔ ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان میں اس یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ منصوبہ سرخ فیتے یعنی بیوروکریٹک رکاوٹوں اور سرکاری سطح پر عدم دلچسپی کی نظر ہوگیا۔
"میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم پاکستان میں ترقی کی رفتار کو کئی گنا بڑھا سکتی ہے ۔ اعلیٰ سطح کے روابط کے باوجود ہمارا پروجیکٹ حقیقت نہ بن سکا لیکن "ہم نے پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے طالب علموں کو وظیفے دے کر امریکہ میں ان کی تعلیم کا بندوبست کیا۔"
لیکن، وہ کہتے ہیں، کہ اگر یونیورسٹی کا پاکستان میں کیمپس بن جاتا تو کتنے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے تھے اور پاکستان کو اس کا کتنا فائدہ ہوتا۔صدیق شیخ، کہتے ہیں کہ پاکستان کو کرپشن کے خاتمے کے علاوہ نجی شعبوں میں تعاون، سرمایہ کاری، تجارت اور پارٹنرشپس کے فروغ کے لیے کام کرنا ہوگا۔
"میرے خیال میں پاکستان کو فوری طور پر استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہیں جو بیرونی سرمایہ کاروں خصوصاً پاکستانی امریکیوں کے لیے سہولت کا باعث ہوں ۔ دوسرے یہ کہ ایسے پاکستانی امریکیوں کی عزت افزائی ہونی چاہیے جو اپنی محنت سے کمایا گیا پیسہ پاکستان میں لگاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سرمایہ کاری کی طرف آسکیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن ایریا میں مقیم کاروباری شخصیت محمد نسیم الدین امریکہ ، پاکستان، اور خلیجی ریاستوں سمیت کئی ممالک میں انرجی، کمپیوٹرز اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں بزنس کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے تین بڑے کام کرنا ہوں گے۔
"ایک تو پاکستان کو ایک اکنامک ڈپلومیسی کی مہم چلانا ہوگی۔ اس کو چلانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعہ دنیا کے بڑے ممالک میں تسلسل کے ساتھ بزنس کمیونیٹی سے روابط قائم کئے جائیں تاکہ سرمایہ کاروں کو ملک کے قدرتی وسائل کے پوٹینشل، اس کے محل وقوع اور بڑی آبادی کی مارکیٹ کے بارے میں بتایا جاسکے۔"
اس کے علاوہ نسیم الدین کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ،پاکستانی امریکی کاروباری لوگوں کی، پاکستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے واسطے بہت اہم ہے۔
"سرمایہ کار سب سے پہلے امن و ا مان اور استحکام پر توجہ دیتا ہے۔ اب شیل جیسی بڑی کمپنی کا پاکستان میں آپریشنز ختم کرنا ایک بڑا دھچکا ہے۔پاکستان کو پہلے جنوبی ایشیا میں اور پھر دنیا بھر میں بزنس کے لیے ایک پر کشش ملک بنانے کے لیے بہت سے ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔"