ایران نے بدھ کے روز ایرانی مظاہرین کے خلاف سرکاری فورسز کی جانب سے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر کی تحقیقات کا حکم دیا ہے. ان میں سے ایک ویڈیو میں کئی سرکاری اہل کار ایک شخص کو بری طرح زد و کوب کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جس کے بعد ایک ایجنٹ اپنی موٹرسائیکل اس شخص کے اوپرچڑھا دیتا ہے اور دوسرا ایجنٹ اسے قریب سے گولی مار دیتا ہے۔ایران میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی جاری کئی دیگر ویڈیوز کی طرح اس کی غیرجانبدار انہ ذرائع سےتصدیق نہیں کی جا سکتی۔
یہ ویڈیو منگل کو دیر گئے سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھی اور مبینہ طور پر تہران کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹویٹر پر کہا، "آج تہران سے بھیجی جانے والی یہ "شاکنگ" ویڈیو اس کی ایک اور ہولناک یاد دہانی ہے کہ ایران کی سیکورٹی فورسز کے مظالم کی کوئی حد نہیں ہے۔ انہیں مظاہرین کو بے دردی سے زدوکوب کرنے اور گولی مارنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے"۔
اس میں مزید کہا گیا ہےکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو فوری طور پر تحقیقات کرنا چاہئے۔
ایرانی پولیس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA کی طرف سے شائع کئے جانے والےاس بیان میں کہا گیا ہے کہ "پولیس کے پرتشدد اور غیر روایتی سلوک کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
22 سالہ مہسا امینی کے مبینہ طور پر نامناسب لباس کی وجہ سے اخلاقی پولس لی حراست اور اس دوران اس کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ستمبر کے وسط سے شروع ہوا اور یہ سات ہفتوں سے جاری ہے۔
ملک بھر سے عوام نے نے حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرکے اور "مرگ بر خامنہ ای" کا نعرہ لگا کر، 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد سے اسے حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔
ایرانی رہنما اس بحران کا الزام امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں پر لگاتے ہیں، زیادہ تر ایرانی اس بیانیےپر یقین نہیں کرتے۔"
خامنہ ای، جنہوں نے ان مظاہروں پر شاذ و نادر ہی کوئی تبصرہ کیا ہے، اسکول کے بچوں کے سامنے ایک تقریر میں امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے "تہران اور ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کے لیےسازشی منصوبہ بنیا ہے۔ انہوں نے احتجاجی مظاہروں کی حمایت کرنے والے امریکی عہدہ داروں کو ’’بے حیا‘‘ قرار دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ناروے میں قائم گروپ ’ایران ہیومن رائٹس ‘کی طرف سے بدھ کو جاری کردہ ہلاکتوں کی تازہ ترین تعداد کے مطابق، امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 176 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنوب مشرقی صوبہ سیستان-بلوچستان کے شہر زاہدان میں ایک علیہحدہ احتجاج کی لہر میں مزید 101 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ ایران کی عدلیہ نے کہا ہے کہ ایک ہزار افراد پر پہلے ہی ، بقول اس کے "بلوؤں" کےالزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔
ہلاکتوں، گرفتاریوں اور پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر کی سخت وارننگ کے باوجود ایران میں مظاہرین نےا پنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر سڑکوں پر احتجاج جاری رکھا ہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیشتر اسلامی ملکوں کی طرح ایران میں بھی کسی کی وفات کے بعد ’چالیسویں‘ کی روایت کی وجہ سے حکومت کے لیے چیلنج مزید بڑھ گیا ہے، کیونکہ کریک ڈاؤن میں ہلاک ہونے والے درجنوں افراد کے لیے ہرماتمی اجتماع کے احتجاجی اشتعال میں بدل جانے کا امکان ہو تا ہے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے’ کریٹیکل تھریٹس پراجیکٹ ‘کی ایرانی تجزیہ کار کیتا فٹز پیٹرکہتی ہیں، "ہلاک ہونے والے مظاہرین کے جنازے اور چالیسوں تیزی سے مزید بدامنی کا محرک بن رہے ہیں۔"
SEE ALSO: ایران: مہسا امینی کے چالیسویں پر 'پابندی'، سیکیورٹی انتظامات کے باوجود مظاہرےوہ کہتی ہیں،"یہ حکومت ایک اعتبار سے پھنس گئی ہے اور احتجاجی تحریک کو پرتشدد طریقے سے دبانے کی کوشش میں نادانستہ طور پر اسے برقرار رکھنے کا خطرہ مول لے رہی ہے۔"
(اس رپورٹ کے لئے کچھ معلومات فرانسیسی خبر رساں ایجنسی، اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔)