رسائی کے لنکس

فیفا ورلڈ کپ کے لیے میڈرڈ سے دوحہ پیدل جانے والا ہسپانوی ایران میں لاپتا


2022 کے فیفا ورلڈ کپ کے لیے میڈرڈ سے دوحہ تک پیدل سفرکرنے والے ہسپانوی ٹریکر سانچیز کے والد فون پر اپنے لاپتہ ہوجانے والے بیٹے کا فوٹو دکھا رہے ہیں۔
2022 کے فیفا ورلڈ کپ کے لیے میڈرڈ سے دوحہ تک پیدل سفرکرنے والے ہسپانوی ٹریکر سانچیز کے والد فون پر اپنے لاپتہ ہوجانے والے بیٹے کا فوٹو دکھا رہے ہیں۔

ویب ڈیسک۔ سال 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کے لیے میڈرڈ سے دوحہ تک پیدل سفرکرنے والے ایک ہسپانوی ٹریکر نے تین ہفتےپہلے ایرانی سرحد عبورکی تھی، جس کے بعد سےکسی نے ان بارے میں کچھ نہیں سنا ہے۔ان کے خاندان نے پیر کو کہا کہ بڑے پیمانے پر بدامنی کے شکار ملک میں ان کے ساتھ کیا ہوا اس بارے میں ان کے دل میں خدشات ہیں۔

تجربہ کار ٹریکر، سابق پیرا ٹروپر اور فٹ بال کے جوشیلےپرستار، 41 سالہ سینٹیاگو سانچیز کو 15 ملکوں کا پیدل سفر کرنے اور پچھلے نو مہینوں کے دوران ایک مشہور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے سفر کو بڑے پیمانے پر شیئر کرنے کے بعد آخری بار عراق میں دیکھا گیا تھا۔

سانچیز کے اہل خانہ نے آخری بار ان کا پیغام 2 اکتوبر کو سنا، ان کے عراق-ایران سرحد عبور کرنے کے ایک دن بعد۔

ان کی والدہ سیلیا کوگیڈور نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا:

"ہم بہت پریشان ہیں ، میرے شوہر اور میں ، اپنے آنسو نہیں روک سکتے ۔"

سانچیز کے والدین، وسطی اسپین کے ایک گاؤں میں اپنےخاندانی گھر میں آ تشدان کے پاس بیٹھے تھے۔ واضح طور پر دکھی اورتھکے ہوئے جوڑے نے صحافیوں کے ساتھ وہ قیمتی آخری آڈیو پیغام شیئر کیا جو اُن کے بیٹے نے مبینہ طور پر ایرانی سرزمین سے اُس صبح اُنہیں بھیجا تھا جس میں ان کے مستقبل کے منصوبوں کی تفصیل تھی۔

سانچیز ستمبر کے آخر میں عراقی کردستان پہنچے تھے،ایک چھوٹے سے سوٹ کیس اور پہیوں والی اس ٹرالی کے ساتھ جس میں ایک خیمہ ،کچھ سامان، پانی صاف کرنے کی گولیاں اور گیس کا چولہا تھا۔ اے پی فوٹو
سانچیز ستمبر کے آخر میں عراقی کردستان پہنچے تھے،ایک چھوٹے سے سوٹ کیس اور پہیوں والی اس ٹرالی کے ساتھ جس میں ایک خیمہ ،کچھ سامان، پانی صاف کرنے کی گولیاں اور گیس کا چولہا تھا۔ اے پی فوٹو

اس پیغام میں سانچیز نے پرسکون آوازمیں بتایا تھا:

’’میں ایک دوست کے ساتھ ہوں جو مجھے لینے آیا ہے۔ میں بندر عباس جا رہا ہوں، جو ایران کے جنوب میں 1,056 میل دور ہرمز کے جزیرے کے قریب ہے‘‘۔

ہسپانوی مہم جو نے بتایا کہ اگلے دن اس کا ایرانی دارالحکومت تہران جانے کا ارادہ ہے، جہاں ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن اس کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔ اس کی اگلی منزل جنوبی ایران کی ایک بندرگاہ بندر عباس ہوتی، جہاں سے وہ کشتی میں قطر جاتے۔

لیکن ان کے والدین کا خیال ہے کہ سانچیز کے تہران پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موجودگی کے تمام سراغ غائب ہو گئے۔

سانچیز نے ایران میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنے خاندان کو خبردار کر دیا تھا کہ اب رابطہ اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ پچھلے مہینوں میں تھا۔ ان کی والدہ نے بتایا:

"کچھ دنوں تک ہم اس کے پیغامات پوسٹ نہ کرنے پر فکرمند نہیں ہوئے، کیونکہ اس نے ایسا ہی کہا تھا۔ لیکن آٹھ یا نو دن بعد، میری بیٹی اس کے قریبی دوستوں اور ہم نے سوچنا شروع کر دیا کہ ہمیں اس کی گمشدگی کی اطلاع دینی پڑے گی،"

اس کے والدین نے 17 اکتوبر کوسانچیز کے لاپتہ ہوجانے کی رپورٹ درج کروائی ۔انہوں نےبتایا کہ اسپین کی پولیس اور سفارت کار ان کے خاندان کی مدد کر رہے ہیں۔

اسپین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسے سانچیز کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ تہران میں اسپین کے سفیر اس کیس پر کام کر رہے ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کواس بارے کسی تبصرہ کے لیے کی جانے والی کالز کا فوری طور پرکوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایران میں سانچیز کی گمشدگی کی اطلاع ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اسلامی جمہوریہ میں ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے بڑا حکومت مخالف احتجاج سامنے آرہا ہے۔

یہ مظاہرے 16 ستمبر کو ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی موت پر پھوٹ پڑے، جسے ایران کی اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر ملک کے سخت اسلامی لباس کوڈ کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے حراست میں لیا تھا۔

تہران نے مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کیا ہے اور بغیر ثبوت پیش کیے غیر ملکی دشمنوں اور عراق میں کرد گروپوں پر بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔

ایرانی انٹیلی جنس منسٹری نے کہا ہےکہ حکام نے نو غیر ملکیوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں زیادہ تر یورپی باشندے ہیں، جنہیں ان مظاہروں سے مبینہ طور پر منسلک ہونےکے الزام میں گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا۔

سانچیز ستمبر کے آخر میں عراقی کردستان پہنچے تھے،ایک چھوٹے سے سوٹ کیس اور پہیوں والی اس ٹرالی کے ساتھ جس میں ایک خیمہ ،کچھ سامان، پانی صاف کرنے کی گولیاں اور گیس کا چولہا تھا، انہوں وہ 23 نومبر کو سپین کے پہلے میچ کے لئے عرب دنیا کے پہلے ورلڈ کپ کے میزبان ملک قطر پہنچنا چاہتے تھے

لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے، سانچیز نےعراق کے کرد شہر سلیمانیہ میں ایک گائیڈ کے ساتھ ناشتہ کیا تھا۔ گائیڈ، جس نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی تھی، کہا کہ اس نے سانچیز کو ایران کی خطرناک سیاسی صورتحال کے بارے میں خبردار کرنے کی کوشش کی تھی۔

گائیڈ نے کہا، لیکن سانچیز بے خوف اور پراعتماد تھا۔ان کا کہنا تھا:

’’وہ قطعی پریشان نہیں لگ رہے تھے۔ انہوں نےکہا، 'میں نے سب کچھ سوچ سمجھ لیا ہے، فکر نہ کرو‘‘

گائیڈ نے مزید کہا کہ سانچیز نے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں کے ایک منظر ہے کرد قصبے ماریوان میں ایک ایرانی خاندان سے ملنے کاپروگرام بنایا تھا جو کہ سانچیز کی انسٹاگرام پوسٹس سے خوش ہونے والے خاندان نے اسے میزبانی کی پیشکش کی تھی۔

گائیڈ نے بتایا کہ سانچیز کے یکم اکتوبر کو سرحد عبور کرنے کے بعد، اس کے پیغامات بہت کم اور خفیہ ہو گئے۔ سانچیز نے اسے بتایا کہ ایران میں چیزیں سلیمانیہ سے "بہت مختلف" ہیں، جو کہ پارکوں اور کیفوں سے بھرا ایک عراقی شہر ہے۔

ان کا آخری پیغام تھا:

’’یہ ایک لمبی کہانی رہی ہے‘‘۔

اپنی آخری انسٹاگرام اپ ڈیٹ میں، ایرانی سرحد عبور کرنے سے ایک رات پہلے، انہوں نے عراق کوالوداع کہنےکی جذباتی تصاویر پوسٹ کیں اور ایک فراخدل کرد خاندان کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے ایک پہاڑ پر ڈیرہ ڈالنے کا ارادہ کیا تھا لیکن قریبی کھیت کے مالک نے اسےاپنے گھر میں بلا کر، بستر، شاور اور ایک لذیز ڈنر سے اس کی تواضح کی۔

انسٹاگرام پرپوسٹ کی جانے والی تصویروں میں وہ الاؤ کے گرد گاؤں کے نوجوان لڑکوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے چائے پی رہے ہیں اور روٹی کے ساتھ چکن سوپ کھارہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG