واشنگٹن ڈی سی (اسد حسن) پرائیوٹ ٹیلی ویژن چینل اے آر وائی کے مالک اور چیف ایگزیگٹو سلمان اقبال نے کہا ہے کہ وہ کینیا میں مارے جانے والے صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے پاکستان کے اندر بنائے گئے کمیشن پر بھروسہ نہیں رکھتے تاہم وہ تمام سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی نگرانی والا غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے تو وہ ارشد شریف کے قتل پیچھے چھپے سچ کو سامنے لانے کے لیے ہر طرح کا تعاون کریں گے۔
پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر ارشد شریف گزشتہ اتوار کی رات کینیا میں نیروبی کے مضافات میں مقامی پولیس کے ہاتھوں گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ مقامی پولیس نے دعوی کیا تھا کہ ارشد شریف شناخت میں غلطی کی بنیاد پر نشانہ بن گئے تھے۔ تاہم پاکستان کے اندر صحافی برادری، ارشد شریف کے دوست احباب، کئی ایک بڑے سیاستدان اور سوشل میڈیا پر ارشد شریف کے پرستاروں اور دیگر صارفین نے مقتول صحافی کے قتل کے پیچھے کسی مبینہ سازش اور ان عوامل پر مسلسل بات کی ہے جن کے تحت ارشد شریف کو پاکستان سے جانا پڑا تھا۔
ارشد شریف موجودہ اتحادی حکومت اور پاکستان کی فوج اور اس کے سربراہ پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں اور ٹیلی ویژن چینل سے علیحدہ کیے جانے کے بعد وہ اپنے یوٹیوب چینل پر تنقیدی پروگرام کرتے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ارشد شریف کے قتل کے پس منظر میں اعلانیہ کہا تھاکہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے اور انہوں نے ارشد شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک سے چلے جائیں۔
ایسے بیانات کے بعد سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے کھل کر تو کئی ایک نے اشارتاً ارشد شریف کے قتل میں پاکستان کی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اور تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ دباؤاس حد تک بڑھا کہ پاکستان کی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنا پڑا۔
جمعرات کو راولپنڈی میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے اگرچہ زیادہ تر گفتگو عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خاتمے میں کسی سازش اور ’ میر جعفر و میر صادق‘ کے بیانیے پر کی, اورفوجی اعلیٰ عہدیدار اپنا موقف دیتے نظر آئے تاہم ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں اے آر وائی کے سربراہ سلمان اقبال کو بھی پاکستان لا کر شامل تفتیش کیا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کیس میں بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جواب آنا باقی ہیں۔
فوج کے ترجمان نے سوالات اٹھائے کہ ارشد شریف کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا؟انہیں کس نے باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا؟ انہیں کس نے یقین دلایا تھا کہ ان کی جان کینیا میں محفوظ ہے؟ کینیا میں ان کی میزبانی کس نے کی اور ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا؟
SEE ALSO: ڈی جی آئی ایس آئی کو خود میڈیا پر آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟فوجی عہدیداروں کے اس مطالبے کے بعد وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناٗاللہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ سلمان اقبال اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے پوچھ گچھ ضروری ہے۔
صحافی ارشد شریف کی والدہ نے گزشتہ روز ایک وڈیو پیغام میں اے آر وائی کے چیف ایگزیگٹو سلمان اقبال کا شکریہ ادا کیا تھا کہ انہوں نے ارشد شریف اور اس کے گھر والوں کی گزشتہ دو ماہ میں بے حد مدد کی ہے۔
’’ سلمان اقبال اور اے آر وائی میرے ایسے بازو تھے کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی‘‘
سلمان اقبال نے ایک تفصیلی بیان جاری کیا ہے جس پر اگرچہ کسی کے دستخط موجود نہیں ہیں تاہم انہوں نے بذات خود وائس آف امریکہ کو بھی یہ خط وٹس ایپ کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اپنے ’’بھائی‘‘ کے سفاکانہ قتل میں کسی طور ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔
SEE ALSO: 'ڈی جی آئی ایس آئی کان کھول کر سن لو میں صرف ملک کی خاطر چپ ہوں'’’ مجھے کھل کر یہ کہنے دیجیے کہ میرے بھائی کے سفاکانہ قتل میں میرا کسی طرح کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مجھے یہ جان کر بے حد صدمہ ہے کہ ابھی تک کوئی کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا سوائے اس کے کہ حکومت بار بار پریس کانفرنسیں کر رہی ہے‘‘بیان میں کہا گیا ہے۔
ان کے بقول ارشد شریف کے قتل کو سیاسی رنگ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
سلمان اقبال نے کہا کہ مارچ 2022 میں جب سے اتحادی حکومت تشکیل پائی ہے وہ انہیں بدنام کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہے۔
’’ کبھی مجھے سمگلر کہا جاتا ہے، کبھی اسلحہ ڈیلر‘‘
انہوں نےاس تحریری بیان میں مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف مریم نواز نے جو مہم شروع کی وہ حکومت کے وزرا نے جاری رکھی ہوئی ہے اور ایف بی آر، ایف آئی اے، پیمرا، اور ایس ای سی پی جیسے ادارے بھی ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سلمان اقبال نے اس خط میں کہا ہے کہ وزیرداخلہ (رانا ثنااللہ) نے بھی ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں ان کے خلاف الزامات عائد کیے ہیں۔
SEE ALSO: ارشد شریف کے قتل کے تانے بانے عمران خان اور سلمان اقبال سے مل رہے ہیں: وزیرِ داخلہڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیرداخلہ کی جانب سے دائرہ تفتیش میں شامل کیے جانے کے بیان کے حوالے سے سلمان اقبال نے کہا:
’’ کہا گیا ہے کہ مجھے بھی ارشد کے قتل میں شامل تفتیش کیا جائے۔ میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات پر بھروسہ نہیں رکھتا لیکن میں ہر اس سوال کا جواب دوں گا جو مجھے بھجوایا جاتا ہے۔‘‘
تاہم اے آر وائی کے سربراہ نے اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کے ادارہ کی نگرانی میں کسی بین الاقوامی کمیشن کی جانب سے تحقیقات میں تعاون کا یقین دہانی کرائی۔
’’ میں غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہوں جس کی نگرانی اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ کر رہا ہو۔ ایسی صورت میں ، میں بلاشبہ مکمل تعاون کروں گا کہ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے چھپا سچ سامنے لایا جا سکے۔ اور اس کے ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جا سکے‘‘