اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری میں تاخیر، پاکستان کی درخواست پر آئی ایم ایف کا اجلاس ملتوی

فائل فوٹو

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر قرض کی قسط منظوری سے متعلق 28 جنوری کو ہونے والی ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ایک بار پھر ملتوی کر دیا ہے۔ اجلاس میں آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالرز کے قرض کی اگلی قسط کے حصول سے قبل پاکستان کے مطلوبہ اقدامات کا جائزہ لینا تھا۔

عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کے حصول کے لیے حکومتِ پاکستان نے فنانس سپلیمنٹری بل 2021 اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور کرا لیے ہیں۔ ان میں سے فنانس سپلیمنٹری بل دونوں ایوانوں سے منظور ہوچکا ہے۔ البتہ حکومت کو اسٹیٹ بینک ترمیمی بل قواعد کے تحت پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے بھی منظور کرانا ہے جس میں اب تک اسے کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایم آئی ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس پاکستان کی درخواست پر ملتوی کیا گیا ہے۔

شوکت ترین نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے کہا گیا ہے کہ حکومت کو سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کو منظور کرانے کے لیے مزید وقت دیا جائے جس پر بورڈ کا اجلاس دو فروری تک ملتوی کیا گیا ہے۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ کہ اس سے قبل ہی سینیٹ سے یہ بل منظور کرالیا جائے گا۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کیا ہے?

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی انصاف) کی حکومت نے مارچ میں آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالر قرض کی قسط وصول کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا تھا کہ ملک کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کومزید خود مختار بنایا جائے گا۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔

حکومت نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنانے کے بعد اس معاملے پر آئی ایم ایف سے یہ شرط واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن آئی ایم ایف اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا اور حکومت کو یہ بل کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے منظور کرانا پڑا اور اب اسے باقاعدہ قانون بنانے کے لیے سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔

مجوزہ ترمیمی بل کے تحت حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کیا جائے گا اور اس مدت میں توسیع بھی کی جاسکے گی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ جب کہ حکومت پہلے ہی 2019 کے بعد سے مرکزی بینک سے قرض نہیں لے رہی بلکہ حکومت نے مرکزی بینک کے قرض میں سے 1500 ارب روپے واپس کیے ہیں۔

معاشی تجزیہ کار اور حزب اختلاف کی جماعتیں اسٹیٹ بینک کے لیے حکومت کے مجوزہ ترمیمی بل کو ملکی خود مختاری کی قربانی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو قرض کے لیے نجی بینکوں کی طرف دیکھنا ہو گا جو کمرشل بنیادوں پر مہنگے اور من مانی شرائط کے تحت ہی قرض دیں گے۔

معاشی ماہر اور محقق سمیع اللہ طارق کے مطابق فی الحال حکومت کے لیے اس بل کو سینیٹ سے منظور کرانا مشکل نہیں لگتا اور اس کی منظوری سے آئی ایم ایف کی وہ شرط پوری کی جائے گی جو مارچ 2021 میں 500 ملین ڈالر کی قسط کے حصول کے وقت حکومت نے تسلیم کی تھی۔

البتہ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ اس میں مزید تاخیر نہ ہو کیوں کہ آئی ایم ایف سے فنڈز ملنے کے بعد پاکستان کے لیے دیگر ڈونر ایجنسیوں اور ممالک سے بھی فنڈز ملنے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں شدید دباؤ کا سامنا ہے جس میں پاکستان کو تجارتی عدم توازن کے ساتھ گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے اس سال تقریبا 30 ارب ڈالرز ادا کرنا ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی مجموعی قومی پیداوار کے چھ فی صد سے زائد رہنے کی امکان ہے۔

کیا پاکستان نے مہنگے سکوک بانڈز جاری کیے؟

بعض معاشی ماہرین اس بات پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے طے شدہ پروگرام کے تحت قرضے کی تیسری قسط حاصل کرنے سے چند روز قبل ہی حکومت نے سات سالہ سکوک بانڈز جاری کیے ہیں جن میں شرحِ منافع آٹھ فی صد سے بھی بلند رکھا گیا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں یہ شرح کافی بلند ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سال 2021 پاکستانیوں کے لیے معاشی طور پر کیسا رہا؟

پاکستان نے اس سے قبل ان بانڈز کا اجرا دسمبر 2017 میں کیا تھا جس پر منافع کی شرح تقریباََ 5.6 فی صد کے لگ بھگ تھی۔

معاشی ماہرین کے خیال میں اگر حکومت کچھ روز کے بعد اس کا اجرا کرتی تو شرح منافع کم رکھی جاسکتی تھی جس سے حکومت کو کم معاوضے پر بین الاقوامی مارکیٹ سے رقم مل سکتی تھی۔

سکوک ایک اسلامی مالیاتی سند ہے جو مغربی مالیات میں بانڈ کی طرح ہوتی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان یہ بانڈز جاری کرتا ہے جب کہ اسلامی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والی کارپوریشنز یہ بانڈز خرید کر اس کے عوض حکومت کو رقم دیتی ہیں جو حکومت مالی خسارہ کم کرنے اور دیگر منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔

لیکن اس بانڈ کے اجرا سے قبل کاغذی ضمانت کے بجائے کسی منافع بخش اثاثے کو بطور ضمانت رکھوایا جاتا ہے جس کی مالیت حکومت کی جانب سے حاصل کی گئی رقم کے برابر ہوتی ہے۔حکومت اس رقم کے عوض سرمایہ کار کو سود کے بجائے منافع ادا کرتی ہے۔ لہذٰا اس بندوبست کے ذریعے حکومت بھی اپنا کام چلاتی ہے جب کہ سرمایہ کار کی رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال اب تک بانڈز کے اجراء سے تقریبا دو ارب ڈالرز کی رقم جمع کی ہے جب کہ رواں مالی سال کے دوران کل 3.5 ارب ڈالرز جمع کیے جائیں گے۔

سمیع اللہ طارق کے خیال میں گزشتہ روز مصر اور نائیجیریا نے بھی کم و بیش پاکستان جتنی شرح ہی پر بانڈز کا اجرا کیا ہے۔ پاکستان اور ان ممالک کی ریٹنگ میں زیادہ فرق نہیں اس لیے بہت زیادہ فرق کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔