سید نور نے بتایا کہ وہ بہت صاف گو، بے باک اور کھرے انسان تھے۔ جو اچھا لگتا صاف بتا دیتے اور جو ناپسند ہوتا اسے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیتے
واشنگٹن —
معروف شاعر، کالم نگار، فلمی نغمہ نگار اور صحافی ریاض الرحمان ساغر کینسر سے لڑتے لڑتے یکم جون کو زندگی کی بازی ہار گئے۔
اُنہوں نے پاکستانی فلموں کے ساتھ ساتھ بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے جو بے حد مشہور ہوئے۔ وہ ایک مقامی اخبار میں’عرض کیا ہے‘ کے عنوان سے قطعات لکھا کرتے تھے۔ اُن کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔
حدیقہ کیانی نے ان کے لکھے گیتوں سے بہت شہرت پائی۔ اس کے علاوہ معروف پاکستانی سنگر فریحہ پرویز کے البم ’اوہ ویلا یاد کر‘ کے تمام گیت ریاض الرحمان نے لکھے۔ بھارت اور پاکستان کے مشترکہ پراجیکٹ’ورثہ‘ میں استاد راحت فتح علی خان کی آواز میں گایا گیا گیت ’میں تینوں سمجھاواں کی‘ بھی آپ ہی کے قلم کا شاہکار ہے۔
ریاض الرحمان کے بچھڑنے پر رنجیدہ، پاکستان کے معروف فلم ڈائریکٹر سید نور نے اسے ایک نا پر ہونے والا خلا قرار دیا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں، اُنھوں نے بتایا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری آج کل جس بحران اور مشکلات کے دور سے گزر رہی ہے، ایسے میں ریاض الرحمان کا جانا ایک اور دھچکا ہے جس سے سنبھلنے میں وقت لگے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ جب میں نے اپنا فلمی کیرئر شروع کیا تو ریاض الرحمان اس وقت شباب کرانوی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ میں نے اپنی پہلی فلم ’قسم‘ کے گیت ان سے لکھوائے۔ اُس کے بعد اُنہوں نے میری دوسری فلم ’سرگم‘ کے گیت لکھے، جو بے پناہ مشہور ہوئے، مثلا ’ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو‘، ’کیا ہے یہی تو پیار ہے‘۔ اِس کے بعد، اُنہوں نے میری فلم ’گھونگھٹ‘ کا معروف گیت ’کانوں میں جھمکا تیرے مجھ کو ستارہ لگے‘ لکھا۔ پھر ’ڈوپٹہ جل رہا ہے‘ کا مقبول گیت ’ہو سکے تو میرا ایک کام کرو، شام کا ایک پہر میرے نام کرو‘‘ لکھا۔
اُن کے الفاظ میں، ’میرا اور اُن کا بہت لمبا ساتھ رہا ہے‘۔
ریاض الرحمان کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے سید نور نے بتایا کہ وہ بہت صاف گو، بے باک اور کھرے انسان تھے۔ جو اچھا لگتا صاف بتا دیتے اور جو ناپسند ہوتا اسے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیتے۔ وہ بہت ہی نفیس انسان تھے۔ کافی انا پرست بھی تھے۔ اور ادب صحافت سے ان کے گہرے تعلق نے ان کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کیا، جو اس انڈسٹری میں کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
اُنہوں نے پاکستانی فلموں کے ساتھ ساتھ بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے جو بے حد مشہور ہوئے۔ وہ ایک مقامی اخبار میں’عرض کیا ہے‘ کے عنوان سے قطعات لکھا کرتے تھے۔ اُن کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔
حدیقہ کیانی نے ان کے لکھے گیتوں سے بہت شہرت پائی۔ اس کے علاوہ معروف پاکستانی سنگر فریحہ پرویز کے البم ’اوہ ویلا یاد کر‘ کے تمام گیت ریاض الرحمان نے لکھے۔ بھارت اور پاکستان کے مشترکہ پراجیکٹ’ورثہ‘ میں استاد راحت فتح علی خان کی آواز میں گایا گیا گیت ’میں تینوں سمجھاواں کی‘ بھی آپ ہی کے قلم کا شاہکار ہے۔
ریاض الرحمان کے بچھڑنے پر رنجیدہ، پاکستان کے معروف فلم ڈائریکٹر سید نور نے اسے ایک نا پر ہونے والا خلا قرار دیا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں، اُنھوں نے بتایا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری آج کل جس بحران اور مشکلات کے دور سے گزر رہی ہے، ایسے میں ریاض الرحمان کا جانا ایک اور دھچکا ہے جس سے سنبھلنے میں وقت لگے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ جب میں نے اپنا فلمی کیرئر شروع کیا تو ریاض الرحمان اس وقت شباب کرانوی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ میں نے اپنی پہلی فلم ’قسم‘ کے گیت ان سے لکھوائے۔ اُس کے بعد اُنہوں نے میری دوسری فلم ’سرگم‘ کے گیت لکھے، جو بے پناہ مشہور ہوئے، مثلا ’ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو‘، ’کیا ہے یہی تو پیار ہے‘۔ اِس کے بعد، اُنہوں نے میری فلم ’گھونگھٹ‘ کا معروف گیت ’کانوں میں جھمکا تیرے مجھ کو ستارہ لگے‘ لکھا۔ پھر ’ڈوپٹہ جل رہا ہے‘ کا مقبول گیت ’ہو سکے تو میرا ایک کام کرو، شام کا ایک پہر میرے نام کرو‘‘ لکھا۔
اُن کے الفاظ میں، ’میرا اور اُن کا بہت لمبا ساتھ رہا ہے‘۔
ریاض الرحمان کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے سید نور نے بتایا کہ وہ بہت صاف گو، بے باک اور کھرے انسان تھے۔ جو اچھا لگتا صاف بتا دیتے اور جو ناپسند ہوتا اسے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیتے۔ وہ بہت ہی نفیس انسان تھے۔ کافی انا پرست بھی تھے۔ اور ادب صحافت سے ان کے گہرے تعلق نے ان کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کیا، جو اس انڈسٹری میں کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5