عام شہریوں کی زندگیاں ڈرون سے زیادہ اہم ہیں: کانگریس مین آندرے کارسن

’صدرکے طورپر مسٹر اوباما کے انتخاب نے کئی بند دروازے کھول دیے ہیں۔ آنے والے برسوں میں لاطینی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس ملک کے صدر بن سکیں گے اور کوئی خاتون بھی یہ نشست سنبھال سکتی ہے‘
مسلم امریکی کانگریس مین آندرے کارسن گذشتہ دنوں تنقید کا نشانہ بنے رہے۔ تنقید کی وجہ امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم کے کنونشن میں ان کی وہ تقریر تھی جس میں انہوں نے کہاتھا کہ امریکی تعلیمی نظام ناکام ہوچکاہے اور اس کی اصلاح کے لیے مدرسوں کے نظام سے راہنمائی حاصل کی جائے۔

کانگریس مین آندرے کارسن 2008 ءسے امریکی ایوانِ نمائندگان میں ریاست انڈیانا کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان سے پہلے یہ نشست ان کی دادی جولیا کارسن کے پاس تھی۔ مسٹر کارسن کا کہناہے کہ انہوں نے سیاست اپنی دادی سے سیکھی ہے اور وہ انہی کے اصلاحاتی نظریے کو لے آگے بڑھ رہے ہیں۔

کانگریس مین ایلی سن کے بعد مسٹر کارسن اعلیٰ امریکی ایوانوں تک پہنچنے والے دوسرے کانگریس مین ہیں۔ وہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسلامی تعلیمات کا مفصل جائزہ لینے کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے پاس بزنس منیجمنٹ میں اعلیٰ ڈگری ہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز پولیس سے کیا۔ وہ انڈیانا کے ہوم لینڈ سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں، ملازمت چھوڑ کر مقامی سطح پر سیاست کا آغاز کیا اور اپنی دادی کے انتقال کے بعد ان کی نشست پر الیکشن جیت کر ایوان نمائندگان میں پہنچ گئے۔

وائس آف امریکہ کے ٹی وی انٹرویوز کے خصوصی پروگرام ’کیفے ڈی سی‘ میں اردوسروس کے چیف فیض رحمٰن سے گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے اسلامی مدرسوں سے متعلق اپنی متنازع تقریر کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مدرسے کا لفظ کچھ عرصے سے منفی معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ وہ امریکہ کے پبلک اسکول سسٹم اور امریکہ کے ان دینی مدرسوں کا موازنہ کر رہے تھے جو مسلم، عیسائی اور یہودی تنظیموں کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔ ان اسکولوں میں حکومت کے منظور کردہ نصاب کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ دینی مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان مروجہ تعلیم کے ساتھ اپنے مذہب سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں اور وہ انگریزی کے ساتھ ساتھ دوسری زبانیں بھی سیکھتے ہیں۔ جب کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے فارغ الحتصیل نوجوانوں کے پاس ڈگری کے سوا زندگی گذارنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔

تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے اِس لنک پر کلک کیجئیے:

http://www.urduvoa.com/media/video/1621832.html?z=0&zp=1

مسٹر کارسن، جو ایک عرصے سے تعلیمی اصلاحات کے لیے مہم چلارہے ہیں، کہتے ہیں کہ امریکی تعلیمی نظام فرسودہ ہو چکاہے اور اسے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، تاکہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد نوجوان معاشرے کے لیے مفید اور کارآمد شہری ثابت ہوسکیں۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلی اس انداز میں لائی جائے جس سے نہ تو کسی کو دوسرے پر سبقت ملے اور نہ ہی شہری آزادیاں متاثر ہوں۔

کانگریس مین آندرے کارسن خود کو ایک باغی کہتے ہیں اور اکثر اصلاحی مہمات میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ وہ پارلیمنٹ کی اپنی رکنیت اور اپنے باغیانہ خیالات میں کس طرح توازن قائم رکھتے ہیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میری ان دونوں حیثیتوں کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے لوگوں کو کسی اچھے کام کے لیے، کسی خاص مقصد کے لیے اکھٹے کرنا، ان کا شعور بیدار کرنا اور منزل کے حصول کے لیے انہیں فعال اور متحرک کرنا۔ جب میں کانگریس مین نہیں تھا، اس وقت بھی میں یہی کام کررہاتھا اور اس سے پہلے بھی میں معاشرتی اصلاح کے لیے اپنی آواز بلند کررہا تھا اور میں اب بھی یہی کام کررہاہوں ۔ لیکن، ان دونوں حیثیتوں کے یکجا ہونے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ میرے پیش کردہ دو اصلاحی بل صدر براک اوباما کے دستخطوں کے اب قانون کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

صدر اوباما کے ساتھ کام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسٹر کارسن نے کہا کہ وہ مسٹر اوباما کا بےحد احترام کرتے ہیں۔ وہ ایک فعال اور متحرک شخصیت ہیں اور بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ امریکی صدرات کی کرسی کے لیے بہترین انتخاب ہیں اور مجھے ان کی حمایت پر فخر ہے۔

کانگریس مین کا کہناتھا کہ وہ ریاست انڈیانا سے مسٹر اوباما کی حمایت میں آگے بڑھنے والے پہلے شخص ہیں۔ اور مجھے ان کے ساتھ اصلاحاتی پروگراموں پر کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان کے مالیاتی اصلاحی منصوبوں پر کام کرچکے ہیں اور ان کے تیار کردہ دو بل منظوری کے بعد قانون بن چکے ہیں۔

مسٹر کارسن نے بڑے فخر سے صحت عامہ کی اصلاحات کے منصوبے کا بھی ذکر کیا جو حزب اختلاف اور دیگر متعدد شعبوں کی زبردست مخالفت کے باوجود نہ صرف قانون بن چکا ہے، بلکہ عملی طور پر نافذ بھی ہو چکا ہے اور اس سے ان لاکھوں امریکیوں کو جنہیں صحت کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کی سہولت حاصل نہیں تھی، فائدہ پہنچ رہا ہے۔

کانگریس مین نے کہا کہ ہیلتھ کیئر بل کے عملی فوائد کی بنا پر اب لوگ اسے اوباما کیئر کے نام سے پکارتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے مشکلات میں گھری ہوئی ملکی معیشت کو کساد بازاری کے بھنور سے نکالنے کے لیے سرمایہ کاری کے اصلاحاتی منصوبوں بھی کام کیا ہے ، جس کے عملی نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ انہیں مسٹر اوباما کی دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کی بے پناہ خوشی ہے۔ اس لیے بھی انہیں اپنے ان منصوبوں پر کام کرنے کا وقت مل گیا ہے جنہیں وہ اپنی پچھلی مدت میں مکمل نہیں کرپائے تھے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ نسل پرستی پر مبنی صدیوں پرانی یہ سوچ غلط تھی کہ رنگ دار اور سیاہ فام افراد کی اہلیت ، صلاحیت اور کارکردگی ، سفید فاموں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہیں بڑھ کر کام کیا ہے۔

مسٹر کارسن کا تعلق ایک ایسے انتخابی حلقے سے ہے جہاں قدامت پسند عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ اپنے انتخاب کے بارے میں ان کا کہناتھا کہ انتخابی مہم میں لوگوں نے مذہب کی بجائے علاقے کی بہتری کے لیے میری کوششوں اور میرے کردار کو سامنے رکھا۔ انہوں نے مجھ سے یہ پوچھا کہ خراب معیشت کی بحالی کے لیے میرے پاس کیا منصوبہ ہے یا یہ کہ میں بھارت کو ’آؤٹ سروس‘ کی جانے والی ملازمتوں کو واپس کیسے لاسکتا ہوں یا یہ افغانستان میں امریکی فوجی ناکامی پرکس طرح قابو پایا جاسکتا ہے۔ کانگریس مین کی حیثیت سے میرا کام ان منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔

ڈرون حملوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسٹر کارسن کہنا تھا کہ بہت سے امریکی جنرلوں کا کہناہے کہ ان سے امریکی فوج کا جانی نقصان کم سے کم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ لیکن، دوسری جانب ملک کے اندر اور باہر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ڈرون کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے کے ساتھ شہری آزادیوں کا معاملہ بھی ہے، دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے عام شہریوں کی جان نہیں لی جاسکتی۔ میرا خیال ہے کہ ڈرون اگرچہ ایک اہم ہتھیار ہے لیکن عام شہریوں کی زندگیاں اس سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔

امریکہ میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مسٹر کارسن نے کہا کہ صدرکے طورپر مسٹر اوباما کے انتخاب نے کئی بند دروازے کھول دیے ہیں ۔ آنے والے برسوں میں لاطینی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس ملک کے صدر بن سکیں گے اور کوئی خاتون بھی یہ نشست سنبھال سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 24 سال قبل انہوں نے ایک افریقی امریکی خاتون جیسی جیکسن کے حق میں صدارتی مہم چلائی تھی لیکن وہ الیکشن لڑنے کے لیے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں اور لوگوں کی سوچ تبدیل ہورہی ہے۔

مسلم کانگریس مین کا کہناتھا کہ وہ تصور کی آنکھ سے آنے والے برسوں میں بہت سے مسلمانوں کو کانگریس مین، سینیٹر، گورنر اور دوسرے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اور انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ امریکہ کی صدارت ایک روز کسی مسلمان کو ضرور ملے گی۔

جب کانگریس مین آندرے کارسن سے پوچھا گیا کہ وہ خود صدارت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ وہ صدارتی انتخابات میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔