پاکستان کے ہرشہر کی ہر سڑک ، ہر گلی، ہر محلے، ہر بازار میں گداگروں کی بے شمار تعداد دیکھنے میں آتی ہے
”’اللہ کے نام پر غریب عورت کی مدد کردو۔‘یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی بھی شخص کا دل نرم کردینے کیلئے کافی ہیں ۔آواز میں اتنی ’عاجزی اور انکساری ہوتی ہے کہ انسان نہ چاہنے کے باوجود عورتوں کو بھیک دینے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس کی جتنی حیثیت ہوتی ہے وہ دے دیتا ہے۔
پاکستان کے ہرشہر کی ہر سڑک ، ہر گلی، ہر محلے، ہر بازار میں گداگروں کی بے شمار تعداد دیکھنے میں آتی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی کی تقریباً ہر بس میں ایک نہ ایک گداگر عورت ضرور نظر آتی ہے ۔ بس کے رکتے ہی یہ گداگر خواتین پھٹے پرانے کپڑے اور پاوٴں میں ٹوٹی چپل پہنے بس میں سوار ہوجاتی ہیں اور بلند آواز کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں بھیک مانگنے لگ جاتی ہیں ۔
ان خواتین کی تعداد اس قدر زیادہ کیوں ہوتی ہے؟ جب یہ سوال ایک خاتون گداکر سے پوچھا تو اس کا جواب تھا، ‘عورتوں اور بچوں کو ایک بھکاری مرد کے مقابلے میں زیادہ بھیک مل جاتی ہے ۔ عورت کو لوگ زیادہ مجبور اور بے بس سمجھتے ہیں۔ اس لئے ترس کھاکر ان کو بھیک ضرور دیتے ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے باعث گداگروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان میں عورتو ں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ان میں زیادہ تر خواتین کی تعداد گاوں دیہاتوں سے تعلق رکھتی ہے جو شہروں میں آکر اس پیشے کو اپنا لیتی ہیں۔
دیہاتوں سے آنیوالی عورتوں کے نزدیک سب سے آسان ”ذریعہ معاش“ گداگری ہوتا ہے، خواتین گداگر معاشی تنگی اور غریبی کے باعث یہ پیشہ اختیار تو کرلیتی ہیں مگر گداگر مافیا کی جانب سےعورت ہونے کی وجہ سے ان کو معاوضہ کم دیا جاتا ہے جس سے ان خواتین کو صرف دو وقت کی روٹی نصیب ہوجاتی ہے اور بچوں کا پیٹ پلتا ہے۔ ان خواتین میں زیادہ تر کی تعداد ایسی ہوتی ہے جن کا خاوند بیروزگار ہوتا ہے اور ان کیلئے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہوتا ہے۔
ان کے ساتھ ان کے بچے بھی اسی پیشہ کو اپنا لیتے ہیں جن کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور وہ بڑے ہوکر پیشہ ور گداگر بن جاتے ہیں۔ گداگر خواتین کے ساتھ چھوٹی بچیاں بھی سڑکوں اور گلیوں میں بھیک مانگتی دکھائی دیتی ہیں۔ گداگر خواتین کاٹولہ گلیوں اور سڑکوں کے علاوہ مزارات اور بازاروں میں بھی کافی تعداد میں دیکھنے میں آتا ہے ۔
معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے خواتین گداگروں کے بھی اپنے مسئلے مسائل ہیں، یہ خواتین گداگرسب س زیادہ پولیس کے ناروا سلوک سے نالاں نظر آتی ہیں۔ بھیک مانگنے کی تگ و دو کے ساتھ ساتھ خواتین گداگروں کے ساتھ سڑکوں پر موجود پولیس اہلکاروں کا رویہ بھی غیر اخلاقی ہوتا ہے، اور پولیس اہلکار ان کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
گداگر خواتین اور بچیوں کو مردوں کی خطرناک نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر مجبوری کے تحت ان خواتین کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔
بھیک مانگنے کا معاوضہ بھی ان کو کم ملتا ہے اور دشواریوں کا سامنا کرنا ایک عورت کیلئے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے گداگر خواتین کو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے اور سڑکوں اور گلیوں میں ہی وقت گزارنا پڑتا ہے۔
اگرحکام بالا کی جانب سے غربت کے باعث گداگری کے پیشے کو اپنانے والی خواتین کو چھوٹے پیمانے پر روزگار مہیا کردیا جائے تو ان کی تعداد میں کمی آسکتی ہے اور یہ خواتین بھی معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکتی ہیں۔