مریخ پر کمند

مریخ کی سطح

ئنس دانوں کا کہناہے کہ مریخ پر زندگی کے امکان پر حتمی پیش گوئی کرنے میں کم ازکم دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور انہیں تسخیر کرنے کا خواب اب حقیقت کی جانب بڑھ رہاہے اور مریخ کی سطح پر کامیابی کےساتھ ایک انتہائی جدید ، بیش قیمت اور چلتی پھرتی سائنسی لیبارٹری اتارنے کے بعد اب یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک انسانی قدم اس سیارے پر ہوں گے۔

مریخ کے لیے کیوریاسٹی کامشن مہنگے ترین خلائی پروگرام میں سے ایک ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے سرخ سیارے کی سطح پر اس چلتی پھرتی لیبارٹری کے پروگرام پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

کیوریاسٹی


چاند کی تسخیر کے بعد جب انسان نے سیاروں اپنی اگلی منزل کے طورپر دیکھنا شروع کیا تواس کا پہلا انتخاب مریخ بنا، کیونکہ وہ اس نظام شمسی میں زمین کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے اور کئی اعتبار سے زمین سے ملتا جلتا ہے ۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سرخ سیارے میں زندگی اپنی کسی شکل میں موجود ہے یا کبھی موجود رہی ہوگی۔

زندگی کا امکان

سائنس دانوں کا کہناہے کہ مریخ پر زندگی کی امکانی شکل انتہائی چھوٹی جراثیمی حیات جیسی ہوسکتی ہے ۔مریخ پر وہ تمام عناصر موجود ہیں جنہوں نے مل کر زمین پر زندگی کو جنم دیا ۔ چونکہ سرخ سیارے پر آکسیجن کی مقدار انتہائی معمولی ہے ، اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں زندگی کا انحصار آکسیجن پر نہ ہو۔ اس انداز کی جراثیمی حیات کرہ ارض پر بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن اس وقت سائنس دانوں کی دلچسپی مریخ پر زندگی کے امکان سے نہیں ہے بلکہ مریخ کی ساخت کےبارے میں معلومات اکھٹی کرنے اور اس سیارے کا جامع نقشہ بنانے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوریاسٹی میں نصب زیادہ تر آلات اسی بارے میں ہیں۔


سائنس دانوں کا کہناہے کہ مریخ پر زندگی کے امکان پر حتمی پیش گوئی کرنے میں کم ازکم دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس عرصے کے دوران سرخ سیارے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا۔

مریخ تک انسانی سفر

زمین اور مریخ کا درمیانی فاصلہ کم ازکم پانچ کروڑ 46 لاکھ کلومیٹر ہے۔ سورج کے مدار میں گردش کے دوران ایک مقام پر یہ فاصلہ بڑھ کر40 کروڑ کلومیٹر تک پہنچ جاتا ہے۔مریخ پر انسان بھیجنے کی راہ میں طویل فاصلہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کیوریاسٹی کو اپنے اس سفر میں آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔ مریخ پر جانے کے لیے سائنس دانوں کو ایک سال سے طویل سفر کے لیے ٹھوس اور مستند انتظامات کرنے ہوں گے۔

زمین کے مدار میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن کاتعمیر اوروہاں طویل عرصے تک خلابازوں کے قیام کی ایک اور وجہ انسان کو لمبی مدت تک زمینی ماحول سےدور رہنے کے لیے تیار کرنا اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات پر قابو پاناہے۔

مریخ کی سطح

مریخ نظام شمسی کا چوتھا سیارہ ہے جسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔بھاری مقدار میں لوہے کے مرکبات کی موجودگی کی وجہ سے مریخ کی سطح سرخ دکھائی دیتی ہے۔ اس بنا پر اسے سرخ سیارہ بھی کہاجاتا ہے۔

مریخ اور زمین

مریخ کی سطح بڑی حد تک زمین سے ملتی ہے۔ اس کی فضا زمین کے مقابلے میں انتہائی لطیف ہے۔ جس میں 95 فی صد کاربن ڈائی اکسائیڈ اور تین فی صد نائٹروجن ہے۔جب کہ انتہائی معمولی مقدار میں آکسیجن اور پانی کی موجودگی کے شواہد بھی ملے ہیں۔ سیارے کی فضا گرد آلود ہے۔ کمزور مقناطیسی غلاف کے باعث یہ سیارہ شمسی تابکاری کے براہ راست زد میں رہتا ہے۔ مریخ کے دو چاند ہیں، مگر وہ زمین کے چاند سے چھوٹے ہیں۔

موسم

زمین کی طرح ایک جانب جھکاؤ کے باعث مریخ پر موسم بدلتے رہتے ہیں۔ حاصل شدہ معلومات کے مطابق موسم سرما میں مریخ کا درجہ حرارت منفی 143 درجے سینٹی گریڈ جب کہ گرمیوں میں 35 درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ مریخ کا دن زمین کے دن سے تقریباً نصف گھنٹہ بڑا ہے جب کہ اس کا ایک سال زمین کےتقریباً 687 دنوں کے مساوی ہے۔

تحقیق کاآغاز

مریخ کئی صدیوں سے انسانی تجسس کا مرکز ہے۔ طاقت وردوربینوں کی ایجاد کے بعد اس سیارے کی سطح کے بارے میں کئی مفید معلومات حاصل ہوئیں اور خلائی سائنس کی ترقی نے تحقیق کے نئے راستے کھول دیے۔

کیوریاسٹی کی پہلی تصویر

1965ء میں مریخ کے مدار میں پہلا امریکی راکٹ میرینر فور پہنچاجس سے سیارے پر پانی کی موجودگی کے شواہد فراہم کیے۔ اس وقت مریخ زمین سے بھیجے جانے والے پانچ راکٹوں کی میزبانی کررہاہے۔جن میں سے تین اس کے مدار میں گردش کررہے ہیں جب کہ دو اس کی سطح پر موجود ہیں۔ جن میں سے ایک کانام ایکسپلوریشن اور دوسرا حال ہی میں اتاراجانے والا کیوریاسٹی ہے۔

کیوریاسٹی

کیوریاسٹی کا سائز ایک درمیانی کار کے مساوی ہے۔ اس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہے۔ یہ لیبارٹری ایک خلائی راکٹ کے ذریعے آٹھ ماہ میں سرخ سیارے تک پہنچی۔ کیوریاسٹی کے چھ پہیئے ہیں، جو اسے پہاڑ پر چڑھنے اور ڈھلوانی سفر میں مدد دیتے ہیں۔ اسے مریخ کے کیل کارٹر کے علاقے میں اتارا گیا ہے کیونکہ سائنس دانوں کا خیال کہ مریخ کے ارتقا سے متعلق زیادہ تر معلومات اسی مقام سے حاصل ہوسکتی ہیں۔

کیوریاسٹی کی مریخ مشن پر روانگی


مریخ کی لطیف فضا کے باعث وہاں کیوریاسٹی کا اتارا جانا سائنس دانوں کے لیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں تھا ۔ راکٹ سے الگ ہونے کے بعد کیوریاسٹی کو مریخ کی سطح پر اترنے میں سات منٹ لگے ۔ سات منٹ میں کیوریاسٹی کی رفتار 13200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سےصفر تک لانا ایک دشوار مرحلہ تھا، جسے سائنس دانوں نے خوف کے سات منٹ کا نام دیا تھا۔ اسے مریخ کی ریتلی سطح پر اتارنے کے لیے پیراشوٹ اور رفتار کم کرنے والے راکٹ انجن استعمال کیے گئے اور یہ منظر ناسا کے مرکزی کنٹرول روم میں سائنس دانوں نے اپنی سانسیں روک کردیکھا اوراس کے بحفاظت مریخ کی سطح چھونے کے بعد سائنس دانوں کی خوشی دیدنی تھی۔

کیوریاسٹی پر کئی کیمرے نصب ہیں۔ اور وہ زمین پر سرخ سیارے کی رنگین تصویریں بھیج رہاہے۔ فی الحال اس سے کم ریزولوشن کی تصویریں حاصل کی جارہی ہیں کیونکہ ہائی ریزولوشن کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کرنے میں طویل وقت صرف ہوتا ہے۔ کیوریاسٹی کو زیادہ فعال بنانے کے لیےاسے مریخ پر اتارنےسے قبل سائنس دانوں نے اس کے کمپیوٹر میں نیا سافٹ ویئر ڈاؤن لوڈ کیا۔

کیوریاسٹی کو اتارنے کی جگہ


کیوریاسٹی میں جوہری توانائی کی پلوٹونیم بیٹریاں لگائی گئی ہیں ۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ وہ کم ازکم دس سال تک کیوریاسٹی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور امکان یہ ہے کہ وہ مزید ایک عشرے تک کارآمد رہ سکتی ہیں۔ کیوریاسٹی اپنے تجربات اور چٹانوں کے نمونے اکھٹے کرنے کے لیے ایک فرلانگ فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرے گا۔ اس میں چیزوں پر ضربیں لگانے، گھسیٹنے اور جھٹکے دینے صلاحیت ہے، اور وہ اس علاقے میں موجود تین میل اونچے پہاڑ پر بھی چڑھے گا۔ سائنسی شواہد اکھٹے کرنے میں مدد کے لیے اس میں لیز بھی لگایا گیا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگلے چھ مہینوں کے دوران انہیں کیوریاسٹی سے جتنی معلومات ملیں گی ان کا حجم گذشتہ 40 برسوں میں اکٹھی جانے والی معلومات سے زیادہ ہوگا۔ اور یہ معلومات اس صدی کے آخر تک انسان کے لیے مریخ پر آمدورفت کا دروازہ کھول دیں گی۔