پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں پر پولیس کے لاٹھی چارج سے تین ڈاکٹر زخمی ہوگئے ہیں جب کہ پولیس نے احتجاج کرنے والے مزید پانچ ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا ہے۔
احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں نے بدھ کو دورانِ احتجاج جب حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کے خلاف کاروائی شروع کردی۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہاتھا پائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی جس سے اسپتال کا انتظام نہ صرف درہم برہم ہوگیا بلکہ اسپتال میں موجود مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک روزقبل صوبائی اسمبلی کے باہر مظاہرہ کرنے والے ڈاکٹروں پر بھی پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا اور آنسوگیس استعمال کی تھی جب کہ لگ بھگ دو درجن احتجاجی ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا تھا۔
بدھ کو پولیس نے ایک روز قبل گرفتارکیے جانے والے ڈاکٹروں کو مقامی عدالت میں پیش کیا جس نے 14 ڈاکٹروں کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔
خیبر پختونخوا میں نوجوان ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے حق میں پچھلے تین ہفتوں سے احتجاج پر ہیں اور مظاہرین نے صوبائی اسمبلی کے قریب ایک احتجاجی کیمپ بھی لگا رکھا ہے۔
ایک روز قبل پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے دفعہ 144 کے تحت صوبائی اسمبلی کے سامنے اور اردگرد کی سڑکوں اور تمام بڑے اسپتالوں میں جلسوں اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگادی تھی تاہم احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں نے اس پابندی کومسترد کردیا ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ وہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کو بچانے، سروس اسٹرکچر، سکیورٹی اور دوران ڈیوٹی مرنے والے ڈاکٹروں کے لواحقین کے لیے معاوضے کے حصول کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔
تاہم صوبائی وزیرصحت شہرام خان نے احتجاج کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔
صوبائی وزیر نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات دیگر صوبوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
صوبائی وزیراطلاعات شاہ فرمان نے حزب اختلاف بالخصوص وفاق میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر پر ڈاکٹروں کو صوبائی حکومت کے خلاف اکسانے کا الزام لگایا ہے۔