پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں ایک ہفتے سے سرکاری اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی مشکلات یہاں کے ڈاکٹروں اور طبی عملے کے ہڑتال کے باعث مزید بڑھ گئی ہیں۔
جب کہ ڈاکٹروں نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو بدھ سے ہڑتال کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھا دیا جائے گا۔
اس ہڑتال میں اگرچہ تمام ڈاکٹر شامل نہیں لیکن اس کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں کام تقریباً معطل رہا۔
یہ معاملہ صوبائی حکومت کی طرف سے سرکاری اسپتالوں میں اصلاحات کے عمل کو یقینی بنانے کی خاطر لازمی سروسز ایکٹ لاگو کرنے سے پیدا ہوا۔
ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ حکومت اصلاحات ایکٹ نافذ کر کے دراصل سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہے اور ڈاکٹروں کو بین الاقوامی سطح پر مروجہ اوقات کار سے زیادہ کام کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار ڈاکٹر عالمگیر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
"ہمارے جو اوقات کار ہیں ہم سے اتنا ہی کام لیں، اس کے علاوہ کام کرنے کو ہم تیار نہیں یا پھر ہمیں (اس حساب سے) مراعات دیں یا اپنے لیے متبادل ڈاکٹروں کا بندوبست کریں۔ پروفیشنل الاؤنس سب کا حق ہے یہ دیا جانا چاہیئے۔"
تاہم صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے منگل کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس دعوے کو مسترد کیا کہ حکومت اسپتالوں کی نجکاری کرنے جا رہی ہے۔
"نجکاری نہیں ان میں اصلاحات لا رہے ہیں۔۔۔ہم نے ان کے پیسے بڑھائے، فنڈز بڑھائے، چھ ارب روپیہ سرکاری اسپتالوں میں ڈالا لیکن انتظامیہ کا مسئلہ تھا۔۔۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ طبی شعبے کے 95 فیصد لوگ ہمارے ساتھ۔"
ان کا کہنا تھا کہ لازمی سروسز ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ نے دیا تھا جس کے بعد اسے نافذ کیا گیا۔
لیکن ڈاکٹر عالمگیر خان کا استدلال ہے کہ سپریم کورٹ رواں ہفتے ہی اپنے ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ احتجاج ہر کسی کا حق ہے لہذا ڈاکٹر بھی اسی فیصلے کے تحت اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔
حکومت اور سرکاری طبی شعبے کے لوگوں کے مابین جاری تنازع سے صورتحال صوبے کے ان غریب مریضوں کے لیے خراب ہوتی جا رہی ہے جو کہ دور دراز کا سفر کر کے سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے کیونکہ نجی اسپتالوں میں قدرے مہنگا علاج ان کے بس سے باہر ہے۔