یمن کے سیاسی رہنماؤں کا دو روزہ اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شروع ہوگیا ہے جس کا مقصد خانہ جنگی اور داخلی انتشار کا شکار یمن کے مسئلے سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔
اجلاس میں یمن کے 400 سے زائد سیاسی رہنما شریک ہیں لیکن صدر عبدربہ منصور ہادی کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے شیعہ حوثی باغیوں کا کوئی نمائندہ اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا۔
حوثی باغیوں کی قیادت نے مطالبہ کیا ہے کہ تنازع کے حل کے لیے ہونے والی اس بات چیت کا انعقاد سعودی عرب کے بجائے کسی غیر جانبدار ملک میں کیا جائے۔
اتوار کو اجلاس کے پہلے روز کا آغاز یمن کے روایتی ثقافتی رقص سے ہوا جس کے بعد رہنماؤں نے ملک کی سیاسی صورتِ حال اورحوثی باغیوں کی مسلح بغاوت اور اس کے خلاف عرب ملکوں کی فضائی کارروائی پر تبادلۂ خیال کیا۔
یمن کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اسمعیل اولد شیخ احمد نے اجلاس کے شرکا پر زور دیا کہ یمن میں قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریق پانچ روزہ عارضی جنگ بندی کی شرائط پر مکمل عمل کریں تاکہ اس میں توسیع کی جاسکے۔
سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے 10 ملکی عرب اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں پر ایک ماہ سے زائد عرصے تک فضائی حملے کرنے کے بعد منگل کو پانچ روز کے لیے عبوری جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جو اتوار کو ختم ہوجائے گی۔
جنگ بندی کا مقصد لڑائی سے متاثر ہونے والے یمنی عوام تک امداد کی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔
ریاض کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی نے کانفرنس میں شریک تمام سیاسی گروہوں پر زور دیا کہ وہ یمن کے تمام علاقوں تک امدادی سامان کی بلا رکاوٹ ترسیل یقینی بنائیں اور ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور سڑکوں پر حملوں سے گریز کریں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی طاقتوں اور خلیجی ممالک کے حمایت یافتہ یمنی صدر منصور ہادی نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا جس میں یمن میں صدر ہادی کی قانونی حکومت کی عمل داری بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یمنی صدر کا کہنا تھا کہ یمن کے عوام ملک میں سیاسی استحکام کے منتظر ہیں جو، ان کے بقول، صرف اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ملک کی قانونی حکومت اور اس کے اداروں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے اور حوثی تحریک خود کو غیر مسلح کرے۔
انہوں نے گزشتہ برس یمن کے مختلف سیاسی گروہوں کے مابین شراکتِ اقتدار کا معاہدہ طے پانےکے بعد حوثیوں کی بغاوت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا۔
حوثی باغیوں نے گزشتہ سال ستمبر میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد صدر ہادی کی حکومت عملاً مفلوج ہوگئی تھی۔باغی یمن کی شیعہ اقلیت کو اقتدار میں زیادہ حصہ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
دارالحکومت پر کئی ماہ تک قبضے کے بعد رواں سال فروری میں باغیوں نے صدر ہادی اور ان کی کابینہ کے وزرا کو ان کی سرکاری رہائش گاہوں پر نظر بند کردیا تھا اور ملک کے تمام جمہوری اداروں کو تحلیل کرنے کے بعد اقتدار سنبھال لیا تھا۔
صدر ہادی باغیوں سے بچ کر ملک کےجنوبی شہر عدن فرار ہوگئے تھے جسے انہوں نے اپنا عبوری دارالحکومت قرار دیا تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں بعد حوثی باغیوں کے عدن کی جانب پیش قدمی کے سبب صدر ہادی کو سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی تھی۔