امن کی راہ میں حائل فریقوں نے جمعرات کے روز ہزاروں قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ثالث کار اسے برسوں سے جاری امن بات چیت میں ایک پر امید آغاز قرار دے رہے ہیں، تاکہ اُس جنگ کا خاتمہ ہو سکے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بھوک کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ثالث کار مارٹن گرِفتھس نے سٹاک ہوم میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ دونوں متحارب گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانا ’’ایک اہم سنگ میل ہے‘‘۔
یمن میں سن 2015 میں اس وقت جنگ کا آغاز ہوا جب سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اتحاد نے، یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کاروائیوں کا آغاز کیا۔ اس جنگ میں اب تک بیسیوں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو دنیا کا بد ترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
سن 2016 کے بعد کوئی بات چیت نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے آخری کوشش اس سال ستمبر میں جنیوا میں مذاکرات کیلئے کی گئی تھی۔ مگر یہ کوشش اس لئے ناکام ہوئی کیونکہ حوثیوں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
مارٹن گرفتھس کہتے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے قیدیوں کے تبادلے سے ہزاروں خاندانوں کو دوبارہ اکٹھا ہونے کاموقع ملے گا۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ کم از کم 5000 قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔
اس جنگ کو وسیع پیمانے پر، سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک درپردہ جنگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ جنگ برسوں سے تعطل کا شکار ہے، اور اس کی وجہ سے خوارک کی سپلائی لائنیں بند ہونےسے تین کروڑ کے قریب افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
یمن کے دارالحکومت صنعا سمیت دیگر گنجان آباد علاقے حوثیوں کے قبضے میں ہیں، جبکہ یمن کا جنوبی شہر عدن برطرف ہونے والی حکومت کے زیر قبضہ ہے۔
دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک میں جاری انسانی بحران نے دونوں فریقوں کو تنازعے کو ختم کرنے پر مجبور کیا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ سفارتکار متحارب گروپوں کے درمیان اعتماد سازی کیلئے ملاقاتیں کرتے رہیں گے۔