گل رخ
گزشتہ چند برسوں کے دوران مغربی ملکوں میں مسلمان خواتین کا سکارف پہننا کئی حوالوں سے خبروں کا موضوع بنتا رہا ہے۔ سکارف یا حجاب کو بعض اوقات مختلف ثقافتوں میں تصادم اور انتہا پسندانہ رجحانات کے ساتھ جوڑکر بھی دیکھا گیا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں فرانس اور جرمنی سمیت یورپ کے کچھ ملکوں میں خواتین کے چہرے کا مکمل پردہ کرنے پرقانونی پابندی عائد کی گئی ہے۔ امریکہ میں گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد ایسے واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں، جن میں سکارف پہننے والی خواتین کو کسی نفرت انگیز رویے یا تبصرے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ امریکہ کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر کا حصہ ہے یا مسلمان تارکین وطن کے لئے امریکہ اور مغربی دنیا میں کم ہوتی ہوئی گنجائش کا مظہر؟ ۔۔ان سوالوں کے جواب سماجی نفسیات پر کام کرنے والے مغربی ماہرین تلاش کررہے ہیں۔
لیکن جہاں مغربی معاشروں میں بعض اوقات ماحول کا دباؤ خواتین کو سکارف سے کنارہ کشی پر مجبور کررہا ہے، وہاں بظاہر اسی سکڑتی ہوئی گنجائش والی مغربی دنیا میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران بعض خواتین سکارف پہن کر میڈیا میں قدم رکھنے میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔
حال ہی میں کینیڈا کے ایک ٹی وی چینل ’سٹی نیوز‘، ٹورنٹو نے اپنی گیارہ بجے رات کی نشریات میں صحافی جنیلہ ماسا کو پہلی بار ان کے سکارف کے ساتھ ٹی وی پر خبریں پڑھنے کی اجازت دی۔
جنیلہ ماسا کی نیوز پروڈیوسرکا کہنا تھا کہ یہ کینیڈا کی براڈ کاسٹنگ کی تاریخ میں کسی سکارف پہننے والی خاتون صحافی کے ٹیلیویژن پر نظر آنے کا پہلا واقعہ ہے۔ جنیلہ ماسا نے اس موقعے پرایک جذباتی ٹویٹ کی ۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’ آج کی رات صرف میرے لئے اہم نہیں ۔ میرا نہیں خیال کہ کینیڈا میں کسی خاتون نے اس سے پہلے حجاب پہن کر خبریں پڑھی ہوں۔'
ماسا نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس ٹویٹ کے بعد سے اب تک ان کا فون بجنا بند نہیں ہوا۔ لوگ انہیں مبارکباد کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سکارف، جسے کئی لوگ حجاب کہنا پسند کرتے ہیں، پہن کر کسی ٹی وی براڈ کاسٹ کی میزبانی کرنا صرف مغربی دنیا میں ہی نہیں، خود پاکستان میں بھی پرائیویٹ نیوز چینلز کی آمد سے قبل ایک انوکھی بات تھی ۔
سن 80 کی دہائی میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیاالحق نے پاکستان ٹیلی ویژن کی خواتین نیوزکاسٹرز کو سر پر دوپٹہ اوڑھنے کا پابند بنانے کی پالیسی متعارف کروائی تھی۔ تاہم حجاب پہن کر خبریں پڑھنے کا رواج اس وقت بھی پاکستانی میڈیا میں جگہ نہیں بنا سکا تھا۔
شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت پاکستانی معاشرے پر عرب ثقافت کی چھاپ اتنی نمایاں نہیں تھی، جتنی آج ہے۔ پاکستانی ثقافت پر عرب ثقافت کی چھاپ کا جائزہ لینے والے ماہرین کہتے ہیں کہ محنت مزدوری کے لئے عرب ملکوں میں جا کر آباد ہونے والے پاکستانی وطن واپسی پر اپنے ساتھ عرب دنیا کی ثقافتی روایات بھی لائے۔ جن میں سے ایک روایت حجاب پہننے کا رجحان بھی ہے۔
پاکستان میں سال 2002 میں پہلے پرائیویٹ نیوز چینل کی آمد کے ساتھ میڈیا منظرنامے پر پہلی بار سکارف پہن کر صحافتی خدمات انجام دینے والی خواتین کی نمائندگی ںظر آنے لگی، اور ان کی قائد کہلائیں پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی۔
پچھلے چند برسوں میں پاکستان کے کئی پرائیویٹ چینلز پر خواتین صحافی حجاب میں صحافتی خدمات انجام دیتی نظر آرہی ہیں۔ تو کیا پاکستانی میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کے لئے بھی سکارف کا انتخاب کسی مشکل کا باعث بنا؟
وائس آف امریکہ اردو سے بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’’شروع میں جب میں نے ایک صحافی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا اغاز کیا تو حجاب کی وجہ سے کئی مشکلات سامنے آئیں مگر بعد میں جیو نیوز جوائن کیا تو اس کی انتظامیہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے خبریں بھی پڑھی ہیں، ٹاک شو بھی کئے ہیں۔ کسی کام میں ابتدائی دنوں کے بعد کوئی دقت نہیں ہوئی۔ حجاب کے ساتھ مجھے بہت سے اعزازات بھی ملے۔‘‘
عاصمہ کہتی ہیں کہ ’’حجاب میرے مذہب کا حصہ ہے، مگرمیری ثقافت کا بھی حصہ ہے۔ میں حجاب کو بذات خود ثقافتی اظہار کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتی ہوں اور اپنے آپ کو جدید سوچ کی حامل صحافی سمجھتی ہوں‘‘۔
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر الطاف اللہ خان سے پوچھا گیا کہ کیا ناظرین کا اینکر یا میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کے حجاب کو مذہب کے ساتھ منسلک کر کے دیکھنا مناسب ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب کو نہ تو مذہب سے جوڑنا مناسب ہے اور نہ ہی فیشن کے ساتھ ۔
الطاف اللہ خان کے بقول، ’’ یہ شناخت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ کچھ خواتین اس کے ذریعے اپنی شناخت کروانا پسند کرتی ہیں جبکہ بعض ایسا نہیں کرنا چاہتیں۔ یہ ہر خاتون کا ذاتی فیصلہ ہے۔ تاہم حجاب کرنے والی خواتین کو پسماندہ سمجھنے کا دور اب نہیں رہا۔‘‘
پاکستان ہو، امریکہ یا دیگر مغربی ملک۔۔ حجاب کی قبولیت یا مخالفت کے بارے میں سوچ اور عوامی رائے کا فرق موجود رہے گا، لیکن بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے شبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ڈاکٹر شہزاد علی کا کہنا ہے کہ حجاب پہننے یا نہ پہننے کا فیصلہ خواتین کا انفرادی حق ہے اور معاشرے کا کام ہے کہ اس حق کو تحفظ فراہم کرے‘ ۔
کیا آپ حجاب کے فیشن یا مذہبی علامت ہونے کی بحث میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو اردو وی او اے ڈاٹ کام کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کیجئے۔