امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ وہ جزیرہ 'گرین لینڈ' خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تاہم، ڈنمارک نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جزیرہ فروخت کے لیے نہیں ہے۔
شمالی بحر اوقیانوس اور بحر قطب شمالی کے درمیان واقع اس جزیرے پر بیان بازی کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈنمارک کا دورہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔
بحر منجمد شمالی میں جیسے جیسے برف کی تہیں پگھل رہی ہیں اس خطے کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
ڈنمارک کا یہ خود مختار جزیرہ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اور اس کی پانچ اہم ترین خصوصیات یہ ہیں۔
1۔ برف میں چھپا 'سرسبز خطہ'
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق، اس جزیرے کا نام 'گرین لینڈ' (سرسبز زمین) ہے۔ لیکن، حقیقت میں اس علاقے کا 85 فیصد رقبہ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
گرین لینڈ 1953 تک ڈنمارک کی کالونی تھا جس کے بعد اسے باقاعدہ طور پر ڈنمارک کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1979 میں اسے ڈنمارک ہی کے زیر انتظام نیم خود مختار حیثیت دے دی گئی تھی۔ لیکن، اب بھی اس کی معیشت کا سارا دار و مدار ڈنمارک پر ہی ہے۔
گرین لینڈ کی آبادی 55 ہزار افراد سے زائد ہے جن میں سے 17 ہزار دنیا کے اِس سب سے بڑے جزیرے کے دارالحکومت نووک میں ہی آباد ہیں۔
2۔ عالمی طاقتوں کا مرکز
جنگ عظیم دوم سے ہی گرین لینڈ امریکہ کے دفاع کے لیے انتہائی اہم رہا ہے۔ یہاں سے نازی جرمنی کے جہاز اور آبدوزوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی تھی۔
امریکی فضائیہ نے 1943 میں گرین لینڈ کے ساحلی علاقے تھولے میں اپنا ایئر بیس بنایا تھا۔ اس بیس سے سرد جنگ کے زمانے میں روس کی نگرانی کی جاتی تھی۔
اب یہ فوجی اڈہ نیٹو کے زیر انتظام ہے جہاں 600 افراد کا عملہ تعینات ہے۔ یہاں سے سیٹلائٹ مانیٹرنگ اور اسٹریٹجک میزائل سسٹمز کی نگرانی کی جاتی ہے۔
جیسے جیسے قطب شمالی میں برف پگھل رہی ہے اور ممکنہ بحری راستے بن رہے ہیں، اس خطے میں عالمی طاقتوں کی دلچسپی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
روس اس خطے میں کافی متحرک ہے جب کہ اس کا اس علاقے میں کسی زمینی خطے پر دعویٰ بھی نہیں ہے۔ اسی طرح چین بھی اس علاقے میں دلچسپی لے رہا ہے۔
چین قطب شمالی سے اپنی تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں اس نے جنوری 2018 میں 'پولر سلک روڈ' منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔
بیجنگ نے 2004 میں گرین لینڈ میں تحقیق کے لیے سائنٹیفک مشن بھی بھیجا تھا جب کہ ایک چینی کمپنی یہاں کان کنی کا اجازت نامہ بھی حاصل کر چکی ہے۔
گزشتہ برس چین کے ایک گروپ نے گرین لینڈ میں تین ایئر پورٹ بنانے کی بھی پیش کش کی تھی۔ اس گروپ کو چینی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ اس پیش کش کے بعد ڈنمارک اور امریکہ بھی چونکنے ہو گئے تھے۔ تاہم، گرین لینڈ نے یہ پیش کش قبول نہیں کی کیونکہ ڈنمارک اور امریکہ نے گرین لینڈ کو مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔
3۔ گلوبل وارمنگ سے متاثر
زمین کا یہ بڑا سا قطعہ آرکٹک کے برف کے پگھلنے کی وجہ سے سمندر کی صورت اختیار کر رہا ہے اور اس جزیرے کو باقی دنیا کے مقابلے میں عالمی حدت کا دُگنا سامنا ہے۔
ورلڈ میٹرو لوجسٹ آرگنائزیشن کے مطابق، گرین لینڈ کے گرد پانی کی سطح سالانہ تین اعشاریہ تین ملی میٹر بلند ہو رہی ہے۔
اس جزیرے میں پانی کی سطح میں 1993 سے 2004 کے مقابلے میں 2004 اور 2015 کے درمیان بہت زیادہ اضافہ ہوا اور یہاں سمندر کی سطح میں 25 سے 30 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا۔
گرین لینڈ میں برف کی تہہ کے پگھلنے کی رفتار میں 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جو 20 سال قبل کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق، اگر گرین لینڈ کی تمام برف کی تہہ پگھل جائیں تو اس سے پانی کی سطح میں 23 فٹ تک اضافہ ہو جائے گا۔
4۔ معدنیات سے مالا مال
ایک جانب جہاں گرین لینڈ کی برف پانی میں تبدیل ہو رہی ہے تو دوسری جانب یہاں کچھ قدرتی خزانے بھی پوشیدہ ہیں۔
اس خطے میں تیل، گیس اور معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں جب کہ سمندری حیات یعنی مچھلیاں، کیکڑے اور دیگر بھی یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
گرین لینڈ کی زمین میں سونا، یورینیم اور قیمتی پتھر بھی موجود ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے یہاں موجود لوہا، المونیم، تانبے، پلاٹینیم اور دیگر دھاتوں کے ذخائر توجہ کا مرکز ہو سکتے ہیں۔
5۔ گرین لینڈ میں دلچسپی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ خریدنے کی بات امریکہ کی جانب سے پہلی بار نہیں کی گئی اس سے قبل بھی ایسا ہو چکا ہے۔
ڈیڑھ سو سال قبل 1867 میں بھی امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اس جزیرے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 1946 میں 10 کروڑ ڈالر اور الاسکا کے کچھ علاقوں کے بدلے گرین لینڈ لینے کی پیشکش کی تھی۔
یاد رہے کہ ڈنمارک اس سے قبل واشنگٹن کو اپنی زمین فروخت کر چکا ہے۔
موجودہ یورپ کے اس ملک نے 1916 میں ڈنمارک کا ویسٹ انڈیز دو کروڑ ڈالرز سے زائد سونے کے عوض فروخت کرنے کی حامی بھری۔ اب یہ خطہ یو ایس ورجن آئی لینڈ کہلاتا ہے۔