رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا : ڈیرہ اسماعیل میں سٹی میئر کا الیکشن سیاسی جماعتوں کا امتحان


پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں سٹی میئر کی نشست قومی سیاست میں اہمیت اختیار کر گئی ہے جہاں حکمراں جماعت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے مابین کانٹے کا مقابلہ ہے۔

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے پولنگ 19 دسمبر کو ہوئی تھی جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ البتہ کچھ علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر پولنگ نہیں ہو سکی تھی جس میں سٹی میئر ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست بھی شامل تھی۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے سٹی میئر کے عہدے پر انتخابات ایک امیدوار کے قتل جب کہ دیگر حلقوں میں انتخابات ووٹنگ کے لڑائی جھگڑوں اور بعض امیدواروں کے انتقال کے باعث ملتوی کر دیے گئے تھے۔

اب کن کن علاقوں میں الیکشن ہو رہے ہیں؟

تیرہ فروری کو جن علاقوں میں پولنگ ہو رہی ہے ان میں چارسدہ، مردان، کوہاٹ، لکی مروت، ڈی آئی خان اور باجوڑ کی کچھ خالی نشستیں شامل ہیں جہاں پولنگ کے لیے 331 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے 13 فروری کو ہونے والے انتخابات کو پرامن رکھنے کے لیے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کی ہدایات جاری کی ہیں۔

تیرہ فروری کی پولنگ کے پر امن انعقاد کے لیے صوبائی الیکشن کمشنر اور چیف سیکریٹری کی زیرِ صدارت ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان عمر حمید خان نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کا کہنا تھا کہ انتخابی عملے کی حفاظت اور سامان کی پرامن منتقلی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے جب کہ پاکستان آرمی اور فرنٹیئر کور کی خدمات بھی ضرورت پڑنے پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل کا انتخابی معرکہ

تیرہ فروری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ سخت اور دلچسپ مقابلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سٹی میئر کی نشست پر ہے۔

یہاں پاکستان تحریکِ انصاف کے عمر امین گنڈا پور ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کفیل نظامی، تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے محمد اشفاق اور پاکستان پیپلزپارٹی کے فیصل کریم کنڈی کےمابین کانٹے کا مقابلہ ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے سیاسی تجزیہ کار محمد فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اصل مقابلہ فیصل کریم کنڈی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کفیل نظامی کے درمیان ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان پریس کلب کے سابق صدر یاسین قریشی کہتے ہیں کہ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے علاقے میں بہت سے ترقیاتی کام کرائے ہیں، لہذٰؒا عمر امین گنڈا پور کی پوزیشن مضبوط ہے۔

اُن کے بقول تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کے جلسے کے بعد ٹی ایل پی کے اُمیدوار نے بھی مقابلہ مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔

اُمیدواروں کی نااہلی اور پھر عدالتی ریلیف

یکم فروری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دخل اندازی اور دھاندلی کے الزامات پر صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد کو نااہل قرار دے دیا تھا جب کہ اُن کے بیٹے مامون الرشید کو بھی تحصیل بکاخیل کے چیئرمین کے عہدے پر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔

آٹھ فروری کو الیکشن کمیشن نے صوبے میں حکمراں جماعت تحریکِ انصاف کے ڈیرہ اسماعیل خان سے سٹی میئر کے اُمیدوار عمر امین گنڈا پور کو بھی نا اہل قرار دے دیا تھا۔

عمر امین گنڈا پور وفاقی وزیر برائے اُمور کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی ہیں۔ عدالت نے علی امین گنڈا پور کو بھی علاقے میں انتخابی مہم چلانے سے روک دیا تھا۔

البتہ جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے عمر امین گنڈا پور کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا کے وزیرِ ٹرانسپورٹ شاہ محمد کی نااہلی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ تاہم عدالت نےتحصیل بکاخیل کے چیئرمین کے عہدے پر انتخابات کے لیے شاہ محمد کے صاحبزادے ہارون رشید کی نااہلی کے کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

انیس دسمبر کے انتخابی نتائج کی صورتِ حال

خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع میں انیس دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کو بیشتر علاقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پشاور سمیت کئی اہم اضلاع میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے میدان مار لیا تھا جس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دوسرے مرحلے کے انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

پشاور کے سینئر صحافی عرفان خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دراصل بلدیاتی انتخابات ہی کے ذریعے ہی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

اُن کے بقول 19 دسمبر کے الیکشن میں صوبے کے عوام کی اکثریت نے ایک طرح سے حکمراں جماعت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

البتہ حکمراں جماعت کا دعویٰ ہے کہ 31 مارچ کو خیبرپختونخوا میں دوسرے مرحلے کے انتخابات میں پارٹی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

XS
SM
MD
LG