رسائی کے لنکس

اربوں ڈالرز عطیہ کرنے والی میکنزی اسکاٹ کون ہیں؟


میکنزی سکاٹ۔ فائل فوٹو۔
میکنزی سکاٹ۔ فائل فوٹو۔

خدمت خلق کو اگر امریکی ارب پتیوں کا پسندیدہ مشغلہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مگر جس سرعت کے ساتھ میکنزی اسکاٹ اپنی دولت خیرات کر رہی ہیں اس پہ دیکھنے والے تو کیا خود عطیات حاصل کرنے والے بھی حیران ہیں۔ سال دو ہزار انیس سے اب تک وہ تقریبا بارہ ارب ڈالر عطیہ کر چکی ہیں۔

میکنزی اسکاٹ ویسے تو دنیا کی چوتھی امیر ترین خاتون ہیں مگر فوربز میگزین نے انہیں اپنی دولت تک لا محدود رسائی، اسے عطیہ کرنے کے عہد اور اس پر عمل کی وجہ سے دنیا کی طاقتور ترین خاتون قرار دیا ہے۔

فوربز میگزین کے مطابق میکنزی اسکاٹ کے اثاثوں کی مالیت اس وقت تقریباً 43.6 ارب ڈالرز ہے۔

ان سے زیادہ امیر خواتین میں لورئیل کاسمیٹکس کی چئیر پرسن فرانسوا بیٹن کورٹ میئرز، وال مارٹ کے مالک خاندان کی رکن ایلس والٹن اور کوکھ انڈسٹریز کے خاندان کی جولیا کوکھ شامل ہیں۔

میکنزی اسکاٹ کون ہیں؟

سال 2019 کے اوائل تک دنیا کے ارب پتی افراد کی فہرست میں مکنزی اسکاٹ کا نام دور دور تک کہیں نہیں تھا تو پھر انہوں نے اچانک اتنی کثیر دولت کیسے کمائی؟

میکنزی اسکاٹ دراصل ای-کامرس اور ڈیجیٹل اسٹریمنگ کمپنی ایمیزون کے مالک اور دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص جیف بیزوس کی سابقہ اہلیہ ہیں۔

مکنزی اسکاٹ نے جیف بیزوس سے سال 1993 میں امیزون کمپنی کے لانچ ہونے سے ایک سال پہلے شادی کی تھی۔ دونوں اس وقت ایک ہی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔

مکنزی اسکاٹ پرنسٹن یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں جس کے بعد انہوں نے نیو یارک کے ایک ہیج فنڈ میں ملازمت اختیار کی اور یہیں ان کی ملاقات جیف بیزوس سے ہوئی۔ محض تین ماہ بعد دونوں کی منگنی ہوئی اور 1993 میں وہ میکنزی اسکاٹ سے میکنزی بیزوس بن گئیں۔

میڈیا خبروں کے مطابق مکنزی اسکاٹ اپنے شوہر کی امیزون کمپنی لانچ کرنے کی خواہش میں ہر قدم ان کے ہمراہ رہیں۔ یہ جوڑا نیو یارک سے امریکی شہر سیئیٹل منتقل ہوا جہاں جیف بیزوس نے والدین سے قرض لے کر کمپنی کی بنیاد رکھی تو مکنزی اسکاٹ نے ایڈمسٹریشن اور مالی معاملات کا خیال رکھا۔

1997 میں امیزون ایک پبلک کمپنی بن گئی اور اس کے اگلے ہی سال جیف بیزوس ارب پتی بن چکے تھے۔

شادی کے پچیس سال ساتھ گزارنے کے بعد اس جوڑے نے اپنی راہیں دو ہزا انیس میں جدا کیں ۔ طلاق کے بعد وہ ایک بار پھر مکنزی اسکاٹ بن گئیں مگر امیزون کمپنی کے تقریباً 36 ارب ڈالرز مالیت کے شیئرز بھی ان کے حصے میں آئے۔

طلاق کے فوراً بعد مکنزی اسکاٹ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی آدھی دولت عطیہ کر دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اور اس پر عمل کرتے ہوئے وہ اب تک تقریباً 12 ارب ڈالرز مختلف خیراتی اداروں کو تحفتاً دے چکی ہیں۔

کارکنان کے ساتھ کام کرتے ہوئے (فائل فوٹو)
کارکنان کے ساتھ کام کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

سال 2021 میں مکنزی اسکاٹ نے دوسری شادی کی۔ ان کے دوسرے شوہرسیئیٹل کے کئی اسکولوں میں سائنس کے استاد رہ چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ خود مکنزی کے اپنے بچوں کے بھی ٹیچر رہے ہیں۔میکنزی اسکاٹ ایک ناولسٹ ہیں، ویب سائٹ 'میڈیئم' پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔ ویب سائٹ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے گزشتہ نو ماہ کے عرصے میں 3.9 ارب ڈالرز 464 غیر منافع بخش تنظیموں میں تقسیم کیے۔

ماحولیات اور تعلیم سے جڑے اداروں کو وہ پہلے بھی خطیر رقم عطیہ کر چکی ہیں لیکن اس بار انہوں نے یوکرین کے لیے کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے بھی ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔

دنیا بھر میں ضرورت مند افراد کے لیے سستے گھر فراہم کرنے والے ادارے Habitat for Humanity کے مطابق میکنزی اسکاٹ کی جانب سے اسے 436 ملین ڈالرز کا عطیہ ملا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب امریکہ میں اسقاطِ حمل کے موضوع پر پھر بحث گرم ہے، عوام سیاسی طور پر اس معاملے پر منقسم ہیں اور امریکی سپریم کورٹ جلدد ہی اس موضوع پر ایک اہم۔کیس کا فیصلہ دینے والی ہے، میکنزی اسکاٹ نے خواتین کو محفوظ اسقاط ِ حمل فراہم کرنے والے ادارے "پلینڈ پیرنٹ ہڈ" کو 275 ملین ڈالرز عطیہ کیے ہیں جس کے بارے میں ادارے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اس کی تاریخ میں کسی فرد واحد کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا عطیہ ہے۔مکنزی اسکاٹ نے دنیا بھر میں خواتین تنظیموں کو سپورٹ کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم "مادرے" کو بھی 15 ملین ڈالرز کا تحفہ دیا ہے۔

مکنزی اسکاٹ نے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ریکارڈ 27 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا
مکنزی اسکاٹ نے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے ریکارڈ 27 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا

خود بقول میکنزی اسکاٹ وہ ایسے گروہوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں جنہیں زیادہ نمائندگی حاصل نہیں۔اپنی بے پناہ دولت کے بارے میں اپنے ایک بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ، اچھا ہو اگر اتنی زیادہ دولت صرف چند ہاتھوں میں ہی نہ ہو۔

مبصرین کی جانب سے میکنزی اسکاٹ کی جانب سے نسلی انصاف اور برابری کے لیے کام کرنے والے گروہوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کو بالخصوص سراہا جاتا ہے کیونکہ ایسی تنظیمیں اکثر بڑے ڈونرز کی جانب سے نظر انداز ہوتی ہیں۔ غیر سفید فام تنظیموں کے علاوہ خواتین اور LGBT تنظیموں کو سپورٹ کرنا بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

امریکی ارب پتی، مالی عطیات اور ٹیکس کا نظام

امریکہ میں ارب پتی افراد کا عطیات دینا کوئی نئی بات نہیں مگر ایسے افراد عموماً تعلیمی اداروں میں عمارتیں بنوانے، اسکالر شپس اور علمی تحقیق پر خرچ کرتے ہیں کیونکہ ایسے کام ان کے لیے ورثہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے ان کا اور ان کے خاندان کا نام تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔

ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنی ہی قائم کردہ چیرٹی فاؤنڈیشنز کو یہ عطیات دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد یہ رقم مہینوں یا سالوں بعد نچلی سطح پر کام کرنے والے اداروں تک پہنچتی ہے۔ ایسے افراد پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اپنی ہی یا ڈونر ایڈوائزر فاؤنڈیشنز کو عطیات دینے کے بعد بھی اس رقم پر دینے والے کا ہی اختیار رہتا ہے۔ پھر،جن اداروں کو یہ عطیات جاتے ہیں وہ اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ ڈونرکو دینے کے بھی پابند ہوتے ہیں۔

دوسری طرف میکنزی سکاٹ ہیں جنہوں نے نہ کوئی ادارہ بنایا ہے نہ فاؤنڈیشن۔ اب تک وہ بغیر کسی خط و کتابت اور پوچھ تاچھ کے مختلف تنظیموں کو عطیات دیتی رہی ہیں۔ نچلی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں پر ان کے اس اعتبار اور اعتماد کو عوامی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ارب پتی افراد پر ایک عام تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ بڑے بڑے عطیات دے کرحکومت کو دیے جانے والے ٹیکسوں میں بچت حاصل کرتے ہیں۔

امراء کی تیزی سے بڑھتی دولت جبکہ عام آدمی کی معاشی مشکلات میں اضافے سے امریکی شہریوں کی ارب پتی افراد کے بارے میں رائےوقت کیساتھ تبدیل ہوئی ہے۔

خاص طور پر جب یہ دیکھا گیا کہ ایک طرف کرونا وبا کے دوران روزآنہ اجرت پر کام کرنے والے ٹیکس دہندگان کی معاشی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا اور دوسری طرف ارب پتیوں کی بے تحاشہ دولت مزید بڑھ گئی۔

خبروں اور رائے شماری کی امریکی ویب سائٹ واکس اور ڈیٹا فار پروگریس کے مشترکہ سروے میں 72 فی صد امریکیوں نے رائے دی کہ پینڈیمک کے دوران امیر ترین افراد کی دولت میں اضافہ نا انصافی ہے۔

سروے میں %36 امریکیوں کی امریکی ارب پتیوں کے بارے میں رائے مثبت پائی گئی جبکہ 49 فیصد کی رائے منفی تھی۔

ادارے کے مطابق جہاں بیشتر امریکی خاندانوں کا گزارہ ہر ماہ ملنے والی تنخواہوں پر منحصر ہوتا ہے جس پر وہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ امریکہ کے امیر ترین افراد با آسانی قانونی طور پر سالانہ کروڑوں ڈالرز کی آمدنی پر وفاقی ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں کیونکہ یہاں ٹیکس آمدن پر ہے مگر اثاثوں پر نہیں اور یہ طبقہ بڑی تعداد میں اسٹاکس اور پراپرٹیز کی قیمتیں بڑھنے سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔

اس مختصر سے عرصے میں میکنزی اسکاٹ اپنی 14 فیصد دولت عطیہ کر چکی ہیں جبکہ فوربز میگزین کے سال 2021 کے اعدادوشمار کےمطابق دنیا کے دو امیر ترین افراد ایلون مسک اور خود میکنزی کے سابقہ شوہر اور ایمازون گروپ کے مالک جیف بیزوس کا شمار ان بخیل ارب پتیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی دولت کا ایک فیصد سے بھی کم عطیات میں دیا ہو ۔

سوال کرنے والے امریکی مالیاتی اور ٹیکس نظام پر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ کیسا نظام ہے جہاں کرونا وبا کے برے وقت میں اسی لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ گئے مگر ارب پتی افراد کی دولت میں ایک کھرب ڈالرز کا اضافہ دیکھا گیا۔

مگر جہاں میکنزی اسکاٹ کے برق رفتاری کے ساتھ براہ راست نچلی سطح پر مختلف غیر منافع بخش تنظیموں کو یوں مالی عطیات دینے کو سراہا جا رہا ہے وہیں ان جیسے کروڑ پتیوں کو دولت کے باعث حاصل اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اپنی پسند کے منصوبوں اور اداروں کے ہاتھ مضبوط کر کے وہ اپنی دولت کے بل پر معاشرے پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

میکنزی سکاٹ کہہ چکی ہیں کہ وہ تب تک اپنی دولت خیرات کرتی رہیں گی جب تک کہ"سیف خالی نہ ہو جائے"۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمازون کے شیئرز کی قیمتیں بڑھنے سے میکنزی کی دولت مسلسل بڑھ ہی رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG