رسائی کے لنکس

اگر ٹوئٹر ایلون مسک کی نجی ملکیت میں چلا گیا تو کیا کیا تبدیلیاں ہو سکتی ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایلون مسک نے ٹوئٹر کی خریداری کا معاہدہ ہونے کے بعد اسے نجی کمپنی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ماہرین کے مطابق کمپنی میں کئی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

نجی ملکیت میں جانے کے بعد ٹوئٹر کے حصص نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ کمپنی ممکنہ طور پر اپنی تفصیلات وال اسٹریٹ اور امریکہ میں کاروباری ضوابط کی نگرانی کرنے والے متعلقہ اداروں کو فراہم کرنے کی پابندی سے بھی آزاد ہو گا۔

ٹوئٹر صارفین کے لیے ممکنہ طور پر یہ تبدیلی واقع ہوسکتی ہے کہ پہلے کے مقابلے میں کمپنی اپنی پالیسی میں بڑی یا غیر مقبول تبدیلیاں کرنے کے لیے آزاد ہوجائے گی۔ یہ آزادی اس لیے بھی ہوگی کہ نجی ملکیت میں جانے کے بعد اسے وال اسٹریٹ میں اپنے حصص کے اتار چڑھاؤ سے متعلق کسی دباؤ کا سامنا نہیں رہے گا۔

یہاں ٹوئٹر کے نجی ملکیت میں جانے کے بعد آنے والی چند نمایاں ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔

ٹوئٹر کے شیئرز کا کیا ہوگا؟

اگر ٹوئٹر کی فروخت کا معاہدہ طے شدہ طریقے پر ہوا تو اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو فی شیئر کے بدلے 54.20 ڈالر ملیں گے۔ اس ادائیگی کے بعد یہ شیئر منسوخ کر دیے جائیں گے۔

اس کے بعد ٹوئٹر کمپنی امریکہ کے کاروباری ضابطوں کی نگرانی کرنے والے اداروں کو ہر تین ماہ بعد اپنی آمدن سے متعلق دستاویزات فراہم کرنے کی پابند نہیں رہے گی۔

اس کے علاوہ کمپنی اپنی حکمتِ عملی یا آپریشنز میں بھی بڑی تبدیلیاں لاسکتی ہے جس کا براہِ راست تعلق اس کے مستقبل سے ہوگا۔

موجودہ حالت میں اگر کمپنی اپنی حکمت عملی اور معاشی سرگرمیوں سے متعلق تفصیلات جاری نہیں کرتی ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے ، جب کہ نجی ملکیت میں جانے کے بعد وہ اس پابندی سے آزاد ہو جائے گی۔

کولمبیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ایرک ٹیلی کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا فرق یہ پیدا ہوگا کہ ایلون مسک اس کے مالک کے طور پر اسے اپنی خواہشات کے مطابق چلا سکتے ہیں یا اس میں جو بھی باقی ماندہ شراکت دار ہیں ان کی رائے بھی شامل کرسکتے ہیں۔ جب کہ موجودہ ڈھانچے میں کمپنی کو اپنے شیئر ہولڈرز کی بڑی تعداد کی رائے کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

کمپنی پر اختیار کے حوالے سے ایرک ٹیلی کا کہناہے کہ ابھی بھی کمپنی کا بورڈ آف ڈائریکٹرز برقرار رہے گا اور اسے ریاستی سطح کے کارپوریٹ ضوابط پر عمل درآمد بھی کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کمپنی پر ٹیکس، ماحولیات سمیت دیگر قوانین بھی لاگو ہوں گے۔

نجی ملکیت میں جانے کا فائدہ؟

نجی ملکیتی کمپنی بننے کے بعد ٹوئٹر کیوں کہ شیئر ہولڈرز کے سامنے جوابدہ نہیں رہے گی اس لیے اپنی پالیسی یا حکمتِ عملی میں کسی بڑی تبدیلی کی صورت میں سرمایہ کاروں کے دباؤ کا سامنا نہیں رہے گا۔

ایلون مسک پہلے ہی اشتہارات پر کم سے کم انحصار کا عندیہ دے چکے ہیں جب کہ اس وقت یہی ٹوئٹر کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

عام طور پر سرمایہ کار جب کسی کمپنی کی پالیسی یا حکمتِ عملی سے مطمئن نہیں ہوتے تو اس کے حصص کی قیمتیں گرا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پبلک لمیٹڈ کمپنی کو اپنے سرمایہ کاروں کے مفادات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

نجی ملکیتی کمپنی کو اسٹاک میں اپنی حصص کی قیمتوں کے بارے میں کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ نہ ہی اسے اپنے انتظامی فیصلوں اور اخراجات سے متعلق شیئر ہولڈرز کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں بزنس مینجمنٹ کے پروفیسر ہیری کریمر کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ اور پبلک کمپنیاں دونوں ہی اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتی ہیں لیکن نجی ملکیتی کمپنیوں کو شیئر ہولڈرز کی شکایات کا خدشہ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ پبلک کمپنیوں کو شیئر ہولڈرز کے علاوہ میڈیا اور ریگولیٹرز کی بھی کڑی نگرانی کا سامنا ہوتا ہے۔

کیا مسک منافع کے بغیر ٹوئٹر چلا سکیں گے؟

اگر ایلون مسک ٹوئٹر کے واحد شیئر ہولڈر بن جاتے ہیں تو اس کا انحصار بڑی حد تک ان کی مرضی پر ہوگا کہ وہ اس کمپنی سے منافع کمائیں یا نہیں۔ لیکن وہ اس ڈیل کی ادائیگی کے لیے کئی بینکوں سے ساڑھے 25 ارب ڈالر قرض لے رہے ہیں۔ بینک سود سمیت یہ رقم واپس لیں گے۔

مسک اگر دیگر شیئر ہولڈرز کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں تو وہ بھی منافع کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ اس لیے شراکت داروں کے ساتھ اختیارات کو ایک فرد یا چند لوگوں تک محدود کرنا آسان نہیں رہتا۔

البتہ نجی ملکیت میں جانے کےبعد بھی کوئی کمپنی دوبارہ اپنی نوعیت تبدیل کرکے پبلک لمیٹڈ کمپنی بن سکتی ہے اور اس کے حصص اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیے جاسکتے ہیں۔

پالیسیوں اور قواعد میں ممکنہ تبدیلیاں

ایلون مسک ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے والے مواد کے قواعد میں تبدیلی کے بھی خواہاں ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹوئٹر کے ایسے ضوابط کی، جن کی بنیاد پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ معطل کیا گیا تھا ان میں گنجائش اور رعایت دینے کی تجویز بھی دیتے ہیں۔ جب کہ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے ’اسپیم بوٹ‘ اور فیک اکاؤنٹ ختم کرنے کے عندیہ بھی دیا تھا۔

مسک اشتہارات کے بجائے ٹوئٹر کو سبسکرپشن کے ذریعے آمدن کے ماڈل پر لانا چاہتے ہیں جس میں ادائیگی کرنے والے صارفین زیادہ بہتر انداز میں ٹوئٹر استعمال کرسکیں گے۔

ایلون مسک کہہ چکے ہیں جتنا ممکن ہو اتنی زیادہ آزادیٔ اظہار ہونی چاہیے۔ وہ ٹوئٹر کو عالمی سطح پر آزادی اظہار کا پلیٹ فورم سمجھتے ہیں۔ ان خیالات کی وجہ سے بعض حلقوں میں یہ تحفظات پائے جاتے ہیں کہ نسل پرستانہ اور نفرت انگیز مواد پر قابو پانے سے متعلق ٹوئٹر کی ضوابط میں آئندہ تبدیلی آسکتی ہے۔

لیکن حال ہی میں انہوں نے ٹیڈ ٹاک کو اپنے ایک انٹرویو میں آزادیٴ اظہار سے متعلق حدود کے بارے میں کہا تھا کہ ٹوئٹر اس بارے میں ملکی قوانین کی پاسداری کرے گا لیکن وہ کمپنی کی پالیسی کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی کی پوسٹ کو ڈیلیٹ کرنے یا کسی صارف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مستقبل پابندی جیسے فیصلوں میں بہت زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG