رسائی کے لنکس

وقت وہ نہیں ہے جو ہم سمجھتے ہیں


وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ دیکھ نہیں سکتے، چھو نہیں سکتے، محسوس نہیں کر سکتے، لیکن وہ مسلسل اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔

وقت کو ماپنے کا پیمانہ حرکت یا تبدیلی ہے۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے، وہ حرکت میں ہے یا تبدیل ہو رہا ہے۔ کچھ چیزیں ہمیں حرکت کرتی ہوئی اور بدلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ ساکت و جامد نظر آتی ہیں۔

کسی چیز کا اپنی جگہ رکا ہونا، اور کسی چیز کا حرکت کرنا یا تبدیل ہونا اصل میں اس کا اپنے گرد و پیش سے موازنہ ہے۔ اگر اس کی رفتار آس پاس کی چیزوں سے مختلف ہے تو وہ ہمیں حرکت کرتی دکھائی دے گی، اگر اس کی رفتار وہی ہو جو آس پاس کی چیزوں کی ہے تو وہ ساکت نظر آئے گی۔

یہ تخیلاتی تصویر ظاہر کرتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد کس طرح کائنات تشکیل پانا شروع ہوئی۔
یہ تخیلاتی تصویر ظاہر کرتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد کس طرح کائنات تشکیل پانا شروع ہوئی۔

اس کائنات میں وقت کا جنم تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے 'بگ بینگ' سے ہوا تھا۔ سائنسی اصطلاح میں بگ بینگ اس دھماکے کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں کائنات وجود میں آئی، کہکشائیں بنیں، ان کے اندر انگنت نظام شمسی وجود میں آئے، زمینیں اور چاند بنے، گیسیں اور توانائی ظہور میں آئی اور پھر ان کا سفر شروع ہوا۔

اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے، وہ حرکت میں ہے یا تبدیل ہو رہا ہے۔ چاہے ہماری آنکھ اسے دیکھ سکے یا نہ دیکھ سکے، مگر وہ متحرک ہے۔ کسی ایک خاص سمت، کسی ایک خاص رفتار سے اس کا سفر جاری ہے۔ اس سفر کو ماپنے کا نام وقت ہے۔ وقت کائنات کی تیسری سمت اور ایک اہم ترین حقیقت ہے۔

کائنات کے اندر سفر اور تبدیلی ہر جگہ، ہر مقام اور ہر سطح پر جاری ہے۔ جو اجسام حرکت کر رہے ہیں، ان کے اندر جو کچھ بھی ہے، ان سب کے اندر سفر جاری ہے۔ ہر چیز مالیکولز اور ایٹموں سے بنی ہے۔ ہر ایٹم کا ایک مرکز ہے جس میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں اور الیکٹران ان کے گرد سفر کرتے ہیں۔ اگر ہم توانائی کی بات کریں، جیسے روشنی، حرارت اور مقناطیسی قوت وغیرہ، تو یہ بھی لہروں کی شکل میں مسلسل سفر میں ہیں۔

اس تصویر میں کہکشاں کے گرد بکھرا ہوا غبار اور گیسیں مقناطیسی لہروں کے زور پر دائروں میں سفر کرتی نظر آ رہی ہیں۔
اس تصویر میں کہکشاں کے گرد بکھرا ہوا غبار اور گیسیں مقناطیسی لہروں کے زور پر دائروں میں سفر کرتی نظر آ رہی ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کائنات میں ایک بہت بڑے گولے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر یہ گولہ اپنے ہی دباؤ اور اپنی ہی قوت کے زور سے پھٹ گیا۔ اور کائنات بن گئی۔

ایک نظریے کے مطابق کائنات کی کہکشائیں اور شمسی نظام اپنے مرکز کی مخالف سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ جب کہ ایک اور نظریے میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا ہر سفر ایک دائرے کے اندر ہے۔ ایک روز یہ سفر اسی مقام پر تمام ہو جائے گا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ اور پوری کائنات دوبارہ ایک بہت بڑے گولے میں مرتکز ہو جائے گی۔ پھر اربوں کھربوں سال کے بعد ایک اور بگ بینگ ہو گا اور ایک نئی کائنات تشکیل پائے گی۔ یہ سفر جاری ہے جس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ اگر کچھ ہے بھی تو انسانی تخیل وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہے۔

نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں اٹلامک کلاک کے سائنس دان لارنس کراس اور رابرٹ روزنر کائناتی کلاک اور دنیا کے کلاک کا وقت سیٹ کرنے کے متعلق بتا رہے ہیں۔ جنوری 2018
نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں اٹلامک کلاک کے سائنس دان لارنس کراس اور رابرٹ روزنر کائناتی کلاک اور دنیا کے کلاک کا وقت سیٹ کرنے کے متعلق بتا رہے ہیں۔ جنوری 2018

بات وقت سے نکلی تھی جو تبدیلی، حرکت اور سفر کو ظاہر کرنے کا پیمانہ ہے۔ ہم وقت کی پیمائش ماہ و سال میں کرتے ہیں۔ اس کی چھوٹی اکائیاں دن، گھنٹے اور سیکنڈ ہیں۔ ہماری ایک کلک ایک سیکنڈ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہماری کلک کی طرح کائنات کی بھی ایک کلک ہے۔ یہ کلک کائنات کا وقت ہے۔ اور یہ کائنات کی گھڑی ہے۔

ایک حالیہ سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کے وقت کی سب سے چھوٹی اکائی، یعنی کلک، اس سے بھی کہیں زیادہ چھوٹی ہے جتنا اس سے پہلے سوچا گیا تھا۔ یہ کلک ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں کے ایک ارب ویں کے ایک ارب ویں حصے کے برابر ہے۔ یہ اتنی چھوٹی اکائی ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔ اسی لیے تو کائنات کا سارا نظام انتہائی خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔

آپ نے اٹامک کلاک کے متعلق تو پڑھا ہو گا۔ دنیا بھر میں وقت کا تعین اسی کلاک سے کیا جاتا ہے اور خلائی مہمات کے وقت کا تمام حساب اسی کلاک کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اٹامک کلاک اصل میں ایٹم کے اندر ہونے والی حرکت کی پیمائش ہے۔ لیکن ایٹم کے اندر کی کلک کائنات کے کلاک کی کلک کے مقابلے میں کہیں بڑی ہے۔

ہم کرہ ارض سے باہر فاصلوں کی پیمائش نوری سال میں کرتے ہیں۔ ایک نوری سال اس فاصلے کے مساوی ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہو گا ہی کہ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ 86 ہزار میل کا سفر طے کرتی ہے۔ کائنات کی وسعت کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ بہت سی کہکشائیں ہماری زمین سے اربوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔

ایک زمانے میں سائنس دانوں کا نظریہ تھا کہ اگر ہم روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کر لیں تو ماضی اور مستقبل میں سفر کر سکتے ہیں اور ماضی کی غلطیاں درست کر سکتے ہیں۔ لیکن اب ایک نئے نظریے میں کہا گیا ہے کہ چاہے ہم روشنی سے تیز رفتار حاصل کر بھی لیں تو بھی ماضی میں جانا ممکن نہیں کیونکہ ہر گزرنے والا پل ہر چیز کے اندر ایک تبدیلی لاتا ہے جسے بوسیدگی کہتے ہیں۔ یہ وہ قدرتی عمل ہے جسے کسی بھی طور پلٹنا ممکن نہیں ہے۔

آپ بھلے سے ٹائم مشین بنالیں، بھلے اس میں بیٹھ کر آپ ماضی کے اندر چلے بھی جائیں، تو بھی آپ عمر کے اسی حصے میں ہوں گے جو آپ کا لمحہ موجود ہو گا۔ کیونکہ آپ کا ماضی آپ کے اندر مسلسل جاری تغیر و تبدل اور بوسیدگی کی شکل میں آپ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG