رسائی کے لنکس

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ ہے کیا اور وزرا پر 'کرپشن' کے الزامات کیوں لگے؟


راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے تحت لاہور کی طرز پر شہر کے اطراف ایک سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے تحت لاہور کی طرز پر شہر کے اطراف ایک سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری علاقوں کو ٹریفک کے رش سے بچانے اور شہر کے اطراف میں دیگر شہروں کی طرح ایک بائی پاس یا رنگ روڈ منصوبہ اپنی تعمیر سے پہلے ہی متنازع ہو گیا ہے۔

منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے الزامات کے بعد وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانی ذوالفقار بخاری عرف زلفی بخاری اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ جب کہ راولپنڈی ڈویژن کے ایک کمشنر، دو ڈپٹی کمشنرز، اسسٹ کمشنرز اور کئی متعلقہ عہدے داروں کو عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے۔ یہ منصوبہ ہے کیا اور اس میں کرپشن کے الزامات کیا ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

رنگ روڈ منصوبے کا آغاز

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے تحت شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے باعث راولپنڈی شہر کے قریب سے گزرنے والی ٹریفک کو شہر کے مضافات سے گزارنے کے لیے لاہور کی طرز پر ایک رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس منصوبے کا مقصد نہ صرف شہر کے باہر سے گزرنے والی ٹریفک کا دباؤ کم کرنا تھا بلکہ اس کی مدد سے شہر کے اندر ٹریفک کے نظام کو مزید بہتر بنانا تھا۔

سن 2017 میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا جس کے لیے ایشیائی سرمایہ کاری بینک نے 400 ملین ڈالر قرض دینے کا فیصلہ کیا۔

سن 2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تو میسرز 'زیرک' نامی کمپنی کو اس منصوبہ کی فزیبلٹی رپورٹ بنانے کا کہا گیا۔

اس کمپنی نے فزیبلٹی رپورٹ بنائی جس کے مطابق اس منصوبہ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر بنایا اور چلایا جانا تھا۔ اس کے ساتھ مختلف انڈسٹریل زون بھی قائم کیے جانے تھے۔

زلفی بخاری (فائل فوٹو)
زلفی بخاری (فائل فوٹو)

اس منصوبے کے لیے 27 دیہات سے تقریباً 14 ہزار 600 کنال اراضی حاصل کی جانی تھی اور آٹھ مختلف مقامات پر انٹرچینج قائم ہونا تھے جن مقامات پر انٹر چینج بننا تھے ان میں ریڈیو پاکستان، روات، چک بیلی، اڈیالہ، چکری، ایم ٹو موڑ، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور سنگجانی شامل تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈرائی پورٹ، اسپتال اور تفریحی پارک کا منصوبہ بھی اس میں شامل تھا۔

زیرک کمپنی نے اس منصوبے کی جو ابتدائی فزیبلٹی رپورٹ دی وہ وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل ہوئی اور اس کا دائرہ کار 36 کلو میٹر سے بڑھ کر 65 کلو میٹر کر دیا گیا اور یہیں سے اس منصوبے میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کا آغاز ہوا۔

معاملے کی مکمل چھان بین کے لیے وزیرِ اعلٰی پنجاب نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کر دی۔

پنجاب حکومت کی فیکٹ فائنڈگ رپورٹ

پنجاب حکومت کی جاری کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر کمشنر راولپنڈی سید گلزار شاہ کے دستخط موجود ہیں جب کہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق کی سربراہی میں اس کمیٹی نے دس روز میں اپنا کام مکمل کیا ہے۔

اس رپورٹ میں سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود پر ڈیزائن کی تبدیلی کی ذمے داری عائد کی گئی ہے، 35 نکات پر مبنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو وزیرِ اعلی پنجاب نے پبلک کرنے کی منظوری دی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق 2017 میں تیکنیکی معاونت کے ادارے 'نیسپاک' نے راولپنڈی رنگ روڈ کا نقشہ منظور کیا اور پھر 27 مارچ 2018 کو وزیرِ اعلٰی نے منصوبے کی منظوری دی۔

ابتدائی طور پر 36 کلو میٹر طویل راولپنڈی رنگ روڈ کے تعمیر کی منظوری دی گئی لیکن ناقدین کے مطابق نقشے میں تبدیلی کا بڑا مقصد مبینہ طور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بڑے گروپوں کو فائدہ دینا تھا۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں 12 ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ڈیزائن کی تبدیلی کے بعد برے پیمانے پر اشتہاری مہم چلا کر اربوں روپے کی زمین عام شہریوں کو فروخت کر دی ہے۔ رپورٹ میں وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو ان ہاؤسنگ اسکیمز کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کا نام بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کے لیے مبینہ طور پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔

رپورٹ میں سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کے خلاف پراجیکٹ کی حتمی منظوری ہونے سے پہلے ہی 2.3 ارب روپے کی زمین خریداری کے لیے ادائیگیاں کر دینے پر نیب کو تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں سابق کمشنر محمد محمود کے بھائی کا ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ تعلق کا انکشاف بھی کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ سابق کمشنر نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا اس کے ذریعے بے نامی طریقے سے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔

کمیٹی نے کنسلٹنٹ کمپنی میسرز زیرک کو بلیک لسٹ کرنے کی بھی سفارش کی۔

رپورٹ میں پاکستانی فوج کے بعض سابق افسران کا نام بھی شامل ہے اور متعلقہ اتھارٹیز کو کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور میجر جنرل سلیم اسحاق کے معاملات کی تحقیقات کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق 2018 سے 2021 کے درمیان رنگ روڈ سے متصل نو موضع جات میں 11 ہزار 387 کنال اراضی کے لیے آٹھ ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کی 490 غیر قانونی ٹرانزیکشن کی گئی ہیں۔

یہ صرف وہ ٹرانزیکشن ہیں جن کا بینکنگ ریکارڈ تحقیقاتی اداروں کے پاس موجود ہے۔ کیش میں ہونے والی ٹرانزیکشن کا ابھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ عوام کی طرف سے خریداری کے لیے کتنی رقوم خرچ کی گئیں اس بارے میں بھی ریکارڈ صرف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پاس موجود ہے اور کسی ادارے کو یہ ریکارڈ اب تک فراہم نہیں کیا گیا۔

زلفی بخاری اور غلام سرور خان کا نام کیوں آیا؟

راولپنڈی کی یہ رنگ روڈ جن علاقوں سے گزرنا تھی ان میں غلام سرور خان کا حلقۂ انتخاب بھی شامل ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی عزیزوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بھاری سرمایہ کاری کی اور اربوں روپے کا منافع کمایا۔ تاہم پیر کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کی اور کہا کہ منصوبے کی الائنمنٹ میں تبدیلی کسی سیاسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ تیکنیکی بنیادوں پر ماہرین نے تجویز کی۔

وفاقی وزیر غلام سرور خان (فائل فوٹو)
وفاقی وزیر غلام سرور خان (فائل فوٹو)

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ سے فائدہ اٹھانے والوں میں ان کا اگر کوئی بیٹا بھائی یا کوئی عزیز شامل ہوا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ لیکن ان کا کوئی عزیز اگر اس میں کام کررہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس سے مالی فوائد اٹھا رہے ہیں، انہوں نے خود پر الزام عائد کرنے والے افراد اور صحافیوں کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنےکا بھی اعلان کیا۔

وزیراعظم کے قریبی ساتھی زلفی بخاری نے اس منصوبہ میں نام آنے کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شفافیت کے پیشِ نظر مستعفی ہو رہے ہیں اور اپنا نام کلئیر ہونے کے بعد کابینہ میں شامل ہوں گے۔

زلفی بخاری کے قریبی عزیزوں کی زمین اس علاقے میں ہونے کا کہا جا رہا ہے جب کہ سابق پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ بھی ان کے قریبی عزیز بتائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اس اسکینڈل میں ان کا نام سامنے آ رہا ہے۔

حکومت کا کیا کہنا ہے؟

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان نے پیر کو لاہور میں نیوز کانفرنس میں تسلیم کیا کہ اس اسکینڈل میں ہماری حکومت کے کچھ لوگوں کے علاوہ اپوزیشن والے اور بیوروکریسی کے چند افسران بھی ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو بلا امتیاز قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب سابق کمشنر محمود احمد کی طرف سے دو ارب 30 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر خرچ کرنے کی انکوائری کرے گا۔ یہ رقم غیر قانونی طور پر ایسی اراضی کی ایکوزیشن کے لیے خرچ کی گئی جس کے نتیجے میں بااثر افراد کی ملکیتی رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

کیا پاکستان سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:59 0:00

اُن کا کہنا تھا کہ طاقت ور افراد کے بے نامی فرنٹ مین ہونے کی بنا پر بعض رہائشی اسکیموں کے خلاف بھی انکوائری کی جا رہی ہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور وفاق میں حکومتوں کو اِس سلسلے میں حقائق سے مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا اور اعلیٰ ترین سطح سے اس الائنمنٹ کو وزیرِاعلیٰ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایات کو دانستہ طور پر مسلسل نظر انداز کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG