دنیا بھر میں یوں تو گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے کرونا وبا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ تاہم حالیہ عرصے میں بھارت میں اس وبا کی دوسری لہر خوفناک شکل اختیار کر گئی ہے جس کی بنیادی وجہ نظامِ صحت پر دباؤ کے علاوہ سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی قلت ہے۔
کرونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ مرض کی شدت زیادہ ہو تو آکسیجن لیول بھی کم ہو جاتا ہے اور یوں مریض کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں مریض کے لیے سب سے اہم آکسیجن ہوتی ہے جس کی قلت کی وجہ سے بھارت میں کئی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔
آکسیجن ایک بے رنگ اور بے ذائقہ گیس ہے جو ہوا میں پائی جاتی ہے ہوا میں اس کا تناسب 20 سے 21 فی صد ہوتا ہے۔
چین کی نینجنگ یونیورسٹی آف انفارمیشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ناصر جلال کا کہنا ہے کہ کرہٴ ارض میں آکسیجن وافر مقدار میں پائی جاتی ہے اور یہ انسانی زندگی کے لیے سب سے اہم جزو ہے۔
اُن کے بقول آکسیجن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی اور سیارے میں زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے پانی اور آکسیجن کا کھوج لگایا جاتا ہے۔
آکسیجن بنتی کیسے ہے؟
ڈاکٹر جلال کے مطابق آکسیجن کو بنانے کے دو بڑے طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے ہوا سے الگ کر لیا جاتا ہے اور دوسرے طریقے میں پانی میں سے آکسیجن کو الگ کیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول کیوں کہ پانی ہائیڈرجن اور آکسیجن سے مل کر بنتا ہے لہٰذا بجلی کے کرنٹ کے ذریعے ہائیڈروجن کو آکسیجن سے الگ کر لیا جاتا ہے۔
البتہ، ڈاکٹر جلال کہتے ہیں کہ آکسیجن کو ہوا سے الگ کرنے کا طریقہ دنیا بھر میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول آکسیجن کی کمرشل پیداوار کے لیے کنسنٹریٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک خاص قسم کی مشین ہوتی ہے جو ہوا میں موجود نائٹروجن کو الگ کر کے آکسیجن جمع کرتی ہے۔
اس طریقے میں ہوا کو جمع کر کے اس کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے جیسے ہی ہوا کو ٹھنڈا کر کے گرم کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے آکسیجن منفی 183 ڈگری پر الگ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ہوا میں موجود آکسیجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، آرگون اور دیگر گیسز کو 'فریکشنل ڈسٹیلیشن' کے ذریعے الگ کیا جاتا ہے.
فریکشنل ڈسٹیلیشن کے عمل میں سب سے پہلے ہوا کو فلٹر کیا جاتا ہے تاکہ اس میں موجود گرد کو الگ کیا جا سکے۔ بعدازاں اسے منفی 200 ڈگری تک ٹھنڈا کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے حرارت دی جاتی ہے۔
اس کیمیائی عمل میں ہوا کو گرم کرنے سے درجۂ حرارت بڑھتا ہے اور منفی 196 تک پہنچتا ہے تو سب سے پہلے نائٹروجن اپنے بوائلنگ پوائنٹ پر الگ ہو جاتی ہے۔ جب درجہ حرارت منفی 186 ڈگری تک پہنچتا ہے تو آرگون الگ ہو جاتی ہے۔
جب درجۂ حرارت منفی 183 ڈگری تک پہنچتا ہے تو آکسیجن الگ ہو جاتی ہے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج مصطفیٰ آباد میں تعینات کیمسٹری کی پروفیسر ناہید گلزار کہتی ہیں کہ قدرت نے آکسیجن کی کمی سے نمٹنے کے لیے ہوا اور پانی کی شکل میں انسان کو دو قیمتی خزانے دیے ہیں۔
اُن کے بقول زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے اور وزن کے لحاظ سے اس میں 88 فی صد آکسیجن موجود ہے۔
مریض کو کب آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے؟
ماہرین کے مطابق انسان کے جسم میں موجود پھیپھڑے جسم کو آکسیجن فراہم کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں اور اگر کرونا وائرس یا کسی اور بیماری کی وجہ سے پھیپھڑے اپنا کام درست طریقے سے نہ کر پائیں تو پھر مریض کو آکسیجن لگائی جاتی ہے تاکہ جسم کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
ڈاکٹر ناصر جلال کے مطابق کرونا کے مریض پھیپھڑوں کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں اور جب بہت زیادہ مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت پیش آتی ہے تو کمرشل بنیادوں پر اس کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے۔
ماہرِ ادویات اور راولپنڈی کی نجی میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر محمد سالم کہتے ہیں کہ کرونا وبا کے دور میں طبی ماہرین کی جانب سے 'آکسیجن سیچوریشن لیول' کنٹرول میں رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
اُن کے بقول اس سے مراد خون میں مناسب آکسیجن کی مقدار موجود ہونا ہے۔ یعنی پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ پھیپھڑوں کی آکسیجن حاصل کرنے کی صلاحیت 94 فی صد سے کم نہیں ہونی چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ایک آلے آکسی میٹر کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے جو خون میں آکسیجن لیول کی ریڈنگ بتاتا ہے۔
ڈاکٹر سالم کے بقول کرونا کے مریضوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سیچوریشن لیول 94 سے بہت نیچے آ جاتا ہے جس کے لیے مریض کو آکسیجن لگائی جاتی ہے۔
آکسیجن کا استعمال مزید کن شعبوں میں ہوتا ہے؟
ڈاکٹر محمد سالم کہتے ہیں کہ آکسیجن کا استعمال اسٹیل مینو فیکچرنگ، کیمیکلز کی تیاری، آئل اینڈ گیس سیکٹرز، ویلڈنگ، گلاس مینو فیکچرنگ اور سب سے بڑھ کر اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کے شکار مریضوں کے لیے کیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اسٹیل مل سمیت پاکستان کی کئی صنعتوں میں آکسیجن پیدا کرنے کے لیے پلانٹ نصب ہیں جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
کرونا کی وجہ سے آکسیجن کیوں کم پڑ رہی ہے؟
بھارت میں کرونا وبا کے دباؤ کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک کنسنٹریٹر سمیت دیگر طبی آلات فراہم کر رہے ہیں جب کہ پاکستان میں بھی کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر آکسیجن جمع کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع اسٹیل مل میں موجود آکسیجن پلانٹ کو دوبارہ فعال کرنے پر بھی غور کیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ اس وقت پاکستان میں روزانہ 729 میٹرک ٹن آکسیجن پیدا کی جا رہی ہے اور اس کی زیادہ تر مقدار طبی شعبے کو فراہم کی جارہی ہے۔
فواد چوہدری کے بقول ملک میں میسر آکسیجن کی کھپت کی سطح 90 فی صد تک پہنچ گئی ہے اس لیے حکومت ایران اور چین سے مزید آکسیجن درآمد کرنے کے معاملے پر غور کر رہی ہے۔
پاکستان میں آکسیجن کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی آکسیجن شعبہ طب کے علاوہ مختلف صنعتوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان میں آکسیجن کے پانچ بڑے پیداواری یونٹ ہیں جو صنعتوں کے علاوہ طبی شعبے کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
البتہ، کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر ملک میں طبی شعبے کے لیے آکسیجن کی طلب میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ فی الحال اُن کے پلانٹ 100 فی صد صلاحیت پر چل رہے ہیں اور اگر طبی شعبے کی ضروریات میں اضافہ ہوا تو صنعتی شعبے کو آکسیجن کی فراہمی مجبوراً منقطع کرنی پڑے گی۔