پاکستان میں گرمی کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہے اور موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس برس گرمیاں زیادہ سخت ہو سکتی ہیں اور بارشوں کے موسم میں طغیانیوں کے بھی خدشات موجود ہیں۔
گزشتہ سال کے " کلائمیٹ رسک انڈکس" کے مطابق پاکستان قدرتی آفات، مثلاً گرمی کی لہروں، بارشوں اور سیلابوں، خشک سالی، موسموں کی شدت، اور زلزلوں کے آسان اہداف کے ملکوں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں کے دوران بڑے پیمانے پر قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے 50 لاکھ افراد متاثر ہوئےاور 20 لاکھ سے زیادہ کو انسانی ہمدردی کی امداد کی ضرورت پڑی۔
عالمی بینک کی "ساؤتھ ایشیا کلائمیٹ چینج ایکشن پلان 2021۔"2025 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے، جن میں شدید موسم، سیلاب، سائیکلون، خشک سالی اور زلزلے شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ صورت حال برقرار رہنے کی صورت میں 2030 تک پاکستان کے پانچ کروڑ لوگوں کے موجودہ معیار زندگی میں چار سے پانچ فی صد تک کمی ہو سکتی ہے، اور بلوچستان کے اکثر علاقے جہاں پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا ہے، وہاں بارشوں کی کمی کے نتیجے میں زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جب کہ دوسری جانب گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں سمندر کی سطح 60 سیٹنی میٹر تک بڑھنے کا امکان ہے جس سے کئی ساحلی آبادیاں زیر آب آ جائیں گی۔
آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے منفی اثرات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر میں مرتب ہو رہے ہیں ۔
قدرتی آفات اور سانحات کے بڑھتے ہوئے خطرات سے متعلق پیر کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر آنے والے برس میں طوفانوں، سیلابوں، خشک سالی اور موسم سے منسلک آفات اور سانحات کی شدت اور تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق سن 2015 میں دنیا بھر میں تقریباً 400 موسمی سانحات رونما ہوئے تھے جب کہ 2030 کے لگ بھگ دنیا کو شدید نوعیت کے 560 کے قریب شدید موسمی سانحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کے ادارے "ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن " نے موجودہ موسمی صورت حال کا موازنہ 1970 سے 2000 کے عشروں سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دور میں لوگوں کو ہر سال اوسطاً درمیانی اور بڑی سطح کی 90 سے 100 قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2030 کے لگ بھگ دنیا کو 2001 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کی شدت بھی زیادہ ہو گی۔اور اسی طرح خشک سالی میں بھی 30 فی صد اضافہ ہو جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کی سربراہ میمی مزوروتی کہتی ہیں کہ اگر ہم نے اس کا ادراک نہ کیا تو سانحات کے نتائج سے نمٹنا ممکن نہیں رہے گا۔ ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ یہ تباہی کا مسلسل جاری رہنے والا چکر ہے۔
انہوں نے پیر کے روز ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان قدرتی سانحات سے نمٹنے کے لیے جو وسائل صرف کیے جاتے ہیں اس کا 90 فی صد حصہ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی مدد کی فراہمی پر استعمال کیا جاتا ہےجب کہ فنڈز کا صرف 6 فی صد تعمیر نو اور 4 فی صد رقوم سانحات سے تحفظ پر صرف کی جاتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر طوفان یا زلزلہ تباہ کن نہیں ہوتا۔ ہم پیشگی منصوبہ بندی کر کے قدرتی آفات کی تباہی کو کم سے کم سطح پر رکھ سکتے ہیں۔
مزوروتی نے بتایا کہ 1990 کے عشرے میں اقوام متحدہ قدرتی سانحات سے اثرات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں سالانہ 70 ارب ڈالر خرچ کرتi تھا جب کہ سانحات کی تعداد اور شدت میں اضافے کے سبب اب ہر سال 170 ارب ڈالر سے زیادہ صرف کرنے پڑتے ہیں۔
قدرتی سانحات کا سب سے زیادہ نقصان غریب ملکوں کو اٹھانا پڑتا ہے اور ان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ نقصانات کے ازالے پر اٹھ جاتا ہے، جب کہ ان کے پاس یہ بوجھ اٹھانے کی سکت بھی نہیں ہوتی۔ ہاورڈ ہیومینی ٹیرین انیشیٹو کے مارکس اینن کیل کہتے ہیں کہ غریب اقوام کے سلسلے میں بعض واقعات میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بڑی مشکلات سے حاصل کی جانے والی ترقی ضائع ہو جاتی ہے اور متاثرہ علاقہ یا پورا خطہ ہی معاشی لحاظ سے بہت نیچے چلا جاتا ہے۔
زیادہ تر قدرتی آفات اور سانحات کا تعلق کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسوں کا اخراج روکے بغیر ہم ان تباہیوں کو نہیں روک سکتے جن میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ کاربن گیسوں کے زیادہ تر اخراج کا ذمہ دار انسان خود ہے اور وہ اس پر قابو پانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے بس اپنی روزمرہ زندگی میں اور ترقی کے پہیے کو چلانے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے ذرائع کا رخ معدنی ایندھن سے ماحول دوست ، شفاف اور قابل تجدید متبالات کی جانب موڑنا ہو گا۔