ایک ایسے ماحول میں جب کہ نسلی امتیاز کے خلاف بہت سے امریکی شہروں میں مظاہرے جاری ہیں، صدر ٹرمپ نے اوکلاہاما کے شہر ٹلسا سے اپنی انتخابی مہم کا پھر سے آغاز کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ مہینوں کی بندش کے بعد معمول کی زندگی کو بحال کیا جائے۔ اوکلاہاما کی ریلی میں شرکاٗ نے اس بات کی پرجوش حمایت کا اظہار کیا۔
دوسری جانب جب کہ صحت کے حکام کوویڈ 19 کے انفکیشن کی بڑھتی ہوئی تعداد کا برابر جائزہ لے رہے ہیں، نسلی امتیاز اور مبینہ پولیس مظالم کے خلاف اجتماعات اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اکثر مقامات سے مظاہرین نے متعدد یادگاری مجسموں کو بھی ہٹا دیا ہے جن میں وہ مجسمے شامل ہیں، جن کا مقصد امریکہ کی خانہ جنگی کے زمانے کے کنفریڈٹ لیڈرز کو اعزاز دینا تھا۔
اسی دوران بہت سے حلقوں کی جانب سے پولیس اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے اور پولیس کی فنڈنگ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، تاہم بعض دوسرے حلقوں کی دلیل ہے کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ پولیس والوں کی بہتر طور پر تربیت کی جا سکے تو آپ کو اس کے لئے بہتر وسائل بھی مہیا کرنے ہوں گے۔
ساوتھ کیرولینا کے سنیٹر ٹم اسکاٹ کا کہنا ہے کہ فیڈرل فنڈنگ سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر طور پر قانون پر عملدرٓآمد کراسکیں۔
اسی دوران ایک دلچسپ صورت حال یہ سامنے آئی ہے کہ یہ مسئلہ ایک ایسے وقت میں رونما ہو رہا ہے جب واشنگٹن میں اہل رائے ان انکشافات پر بحث و تمحیض کر رہے ہیں اور ان کا جائزہ لے رہے ہیں، جو قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے اپنی کتاب میں کئے ہیں۔ اس کتاب نے مبصرین کی نظر میں امریکہ میں بظاہر ایک سنسنی پیدا کر دی ہے۔ اس لئے کہ اس میں ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں، گویا گھر کے بھیدی کی جانب سے، بعض اہم باتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لئے نامہ نگار کین فاراباوُ نے اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی ہے کہ یہ تصنیف صدر ٹرمپ کی قیادت کا اجمالی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں بظاہر بعض متنازعہ معاملات سے متعلق صدر اور ان کی انتظامیہ پر بعض الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں تاہم وائٹ ہاؤس کے مشیر پیٹر نوارو نے جان بولٹن کی طرف سے کتاب میں لگائے جانے والے الزامات کو رد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جان بولٹن کو ان کے عہدے سے اس لئے سبکدوش کر دیا گیا تھا کہبین الاقوامی معاملات میں ان کے خیالات صدر ٹرمپ کے نظریات سے قطی طور پر ہم آہنگ نہیں تھے۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر کے الفاظ میں جان بولٹن نے موجودہ ماحول میں کتاب کو شائع کر کے بنیادی طور پر روایت کی تمام حدوں سے روگردانی کی ہے اور اس سے، بقول ان کے، وہ خطیر منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ محکمہ انصاف نے بولٹن کی کتاب کے اجرا کو اس بنیاد پر روکنے کی کوشش کی تھی کہ اس میں خفیہ معلومات درج ہیں لیکن ایک وفاقی جج نے اس کی اجازت دیدی ہے۔
تجزیہ کاروں کی نگاہ میں ایک ایسے وقت میں جب کہ امریکی صدارتی انتخاب کو اب چار مہینے سے کچھ ہی زیادہ عرصہ رہ گیا ہے، جان بولٹن کی کتاب ووٹروں کی رائے پر کس طرح اثر انداز ہو گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کی اشاعت کا وقت قابل غور ہے۔