افغان صوبہٴ لوگر کے گورنر حلیم فدائی نے الزام عائد کیا ہےکہ ان کے ملک میں دہشت گردی کے لئے ازبکستان، ترکمانستان، پاکستان اور چین سے لوگ آ رہے ہیں۔ طالبان کو افغان افواج میدان جنگ میں شکست دے چکی ہیں، اس لئے اب وہ آسان ہدف پر حملے کرکے اپنے وجود کا یقین دلانا چاہتے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام راؤنڈ ٹیبل میں میزبان نفیسہ ہودبھائے کے سوالوں کے جواب میں حلیم فدائی نے کہا کہ ’’افغان پولیس کیڈیٹس عید کی چھٹیوں پر گھروں کو جارہے تھے کہ ان نہتے زیر تربیت جوانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
حلیم فدائی کا کہنا تھا کہ ’’دہشت گردی ایک نظریاتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے‘‘، جس کی آبیاری، بقول ان کے، ’’قبائلی علاقوں یا افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے شہروں میں قائم مدارس میں وہ مولوی کر رہے جو پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’ملا عمر پاکستان کے شہر کراچی میں زیر اعلاج رہا، ملا منصور پاکستان میں مارا گیا۔ اسامہ بن لادن بھی پاکستان میں مارا گیا۔ ان حقائق کی بنیاد پر کوئی کیسے پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد نہ کرے‘‘۔
ایک سوال پر افغان گورنر نے کہا کہ وارسا کے نیٹو اجلاس میں ان کا ملک جہاں دہشت گردی کے خلاف علاقائی تعاون کی بات کرے گا وہیں وہ ملک میں حکومت کی جانب سے کرپشن کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصلات بھی پیش کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس اجلاس میں افغانستان میں جاری میگا پروجیکٹس، منشیات کے خاتمے کی مشترکہ حکمت عملی اور افغان ایئرفورس کو بہتر بنانے پر بھی بات کی جائے گی، جبکہ افغانستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔
اِسی پروگرام میں شریک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے سابق سیکورٹی چیف برگیڈئر محمود شاہ نے کہا کہ ’’مدارس خود پاکستان کے لئے مسئلہ ہیں جن کی اصلاح کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن، افغانستان میں یہ سوچ بن گئی ہے کہ جو کچھ بھی ہو اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا جائے‘‘۔
برگیڈئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مثبت سمت میں بڑھ رہا ہے۔ لیکن، بقول ان کے، پڑوسیوں کی جانب سے اس اقدام کا مثبت جواب نہیں مل رہا۔ انھوں نے سرحد کے آرپار دہشت گردوں کی آمد و رفت کی بنیادی وجہ افغان مہاجرین کو قرار دیا جنھیں ضابطے میں لانے اور انھیں ان کے ملک واپس بھیجنے کے لئے مؤثر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں؛ اور ساتھ ہی سرحدیں سیل کرنے کے انتظامات بھی بہتر کیئے جا رہے ہیں۔
برگیڈئر محمود شاہ نے کہا کہ ’’ملا عمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں بیمار ہوا وہہں دفن ہے۔ ملا منصور پاکستان میں نہیں بلکہ ایران میں رہتے تھے اور ان کا خاندان آج بھی وہیں مقیم ہے‘‘۔
گورنر حلیم کا انٹرویو سننے کے لئے درج ذیل لنک کلک کیجئے: