رسائی کے لنکس

وینزویلا: نرس کی تنخواہ دس ڈالر ماہانہ، مگر اس سے ملتا کچھ نہیں


وینزویلا کے شہر کیرکس کے ہوزے گرگوریو ہرننڈس ہاسپٹل میں ایک نرس ٹیسٹ کے لیے مریض کے خون کا نمونہ حاصل کر رہی ہے۔ نومبر 2018
وینزویلا کے شہر کیرکس کے ہوزے گرگوریو ہرننڈس ہاسپٹل میں ایک نرس ٹیسٹ کے لیے مریض کے خون کا نمونہ حاصل کر رہی ہے۔ نومبر 2018

فرننڈس ایک اسپتال میں نرس کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس نے اسپتال میں گرد سے اٹی ایک الماری میں ایک میوزک بینڈ کا شوخ و چمکیلا سوٹ بھی رکھا ہوا ہے۔ اسپتال سے چھٹی کے بعد وہ چمکیلا سوٹ پہن کر اپنے بینڈ کے ساتھ ایک شراب خانے میں گاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ گائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے۔

یہ صرف وینزویلا کے فرنندس کی کہانی نہیں ہے۔ اقتصادی بحران میں مبتلا اس ملک کے اسپتالوں میں نرس کے طور پر کام کرنے والی ہر عورت اور مرد کی کہانی ہے۔ انہیں اپنے زندہ رہنے کے لیے اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کے بعد کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے۔

اقتصادی پابندیوں نے وینزویلا کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ جن کی کہانیاں میڈیا پر بکھری پڑی ہیں۔ اس وقت یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ اس بحران کا سامنا نرسنگ کے پیشے سے منسلک افراد کیسے کر رہے ہیں۔

وینزویلا میں ایک نرس کو ماہانہ محض 10 ڈالر تنخواہ ملتی ہے۔

فرننڈس کا کہنا ہے کہ دس ڈالر لینے کے لیے اسپتال کی 12 گھنٹوں کی شفٹ میں کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب دس ڈالر ہاتھ میں آتے ہیں تو ہاتھ میں ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ اس سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ ہر چیز بہت مہنگی ہو چکی ہے۔

جب اس کا میوزک شو نہیں ہوتا تو وہ اپنے کسی ساتھی کی جگہ اسپتال میں ڈیوٹی کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈیوٹی کے بدلے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔ کبھی آٹا اور کبھی دال۔ شکر ہے کہ خالی ہاتھ گھر نہیں جانا پڑتا۔

کیرینو بھی فرننڈس کی طرح کیرکس کے اسپتال میں کام کرتی ہے۔ 30 سالہ نرس کیرنیو کا کہنا ہے کہ اسپتال سے ڈیوٹی کے بعد وہ گھر میں بالوں کا سپرے بناتی ہے۔ اس کا خاوند اور والد بھی سپرے بنانے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ وہ دونوں بے روزگار ہیں۔ وہ دونوں ہی کیا، اقتصادی بحران کی وجہ سے وینزویلا میں بہت سے لوگ بے روزگار ہیں۔ کیرنیو اسی لیے تو 10 ڈالر ماہوار کی نوکری نہیں چھوڑ رہی۔ ہر ماہ کچھ تو ملنے کی امید ہوتی ہے۔ اگر یہ امید بھی ٹوٹ گئی تو پھر کیا ہو گا۔ بالوں کا سپرے تو ہوائی روزی ہے۔ کبھی مل جاتی ہے اور کبھی کئی گھنٹوں تک مارکیٹ میں گلا پھاڑ کر صدائیں لگانے کے بعد بھی سپرے کی ایک بوتل تک نہیں بکتی۔

کیرنیو کو توقع ہے کہ حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔ کبھی تو اقتصادی پابندیاں اٹھیں گی اور ان کی زندگیوں میں بھی خوشحالی آئے گی۔

اینا روساریو ، نرسنگ کالج کیرکس کی صدر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے سال جون سے 15000 ہزار نرسیں ملازمت چھوڑ چکی ہیں، جو ملک میں نرسوں کی کل تعداد کا 40 فی صد ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نوکری چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ گھر میں بیٹھ گئے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ لوگ ملک چھوڑنے کے لیے تنکے کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔ جسے یہ تنکا ملتا ہے وہ جھٹ نوکری چھوڑ کر غائب ہو جاتا ہے۔

42 سالہ روئز بھی اسپتال میں نرسنگ کا کام کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی اسپتال چھوڑ کر کہیں اور نہیں جائے گا۔ اسے کیرکس کے اسپتال سے محبت ہے، کیونکہ اس اسپتال میں اس کے چار پیارے پیارے بچے پیدا ہوئے تھے۔

روئز کہتا ہے کہ ساتھی کہتے ہیں کہ اسپتال میں تمہارا گزارہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ تم دوائیاں چوری کر کے بیچتے ہو۔ وہ ہنس کر بولا، وہاں دوائیاں ہوں گی تو چراؤں گا۔

روئز کا کہنا ہے کہ وہ گزارے کے لیے رات کو سیکورٹی گارڈ کی نوکری کرتا ہے، لیکن کسی کو بتاتا نہیں ہے۔ بلکہ انہیں تنگ کرنے کے لیے کہتا ہے کہ میں تو دس ڈالر ماہانہ کی تنخواہ میں گزارہ کرتا ہوں۔ پھر وہ آہستہ سے بولا کہ سچی بات یہ ہے کہ مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ دس تنخواہوں میں تو نرس کا یونیفارم بھی نہیں آتا۔ میں چار سال پرانی یونیفارم پہن رہا ہوں۔ کہیں نہ کہیں سے پھٹ جاتا ہے۔ ہر ہفتے سوئی دھاگہ لے کر سینے کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے۔

پھر وہ ایک لمبا سانس لے کر مسکرایا۔ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ کبھی تو اچھے دن آئیں گے۔

یہ صرف نرسنگ کے شعبے کی ہی کہانی نہیں ہے، دوسرے پیشوں کا قصہ اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

کیملو ٹورس تین بچوں کا باپ ہے۔ وہ گھر میں آئس کریم بنا کر مارکیٹ میں بیچتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ فروخت بہت کم ہو گئی ہے۔ لوگوں کو ایک وقت کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ آئس کریم تو بھرے پیٹ کے چونچلے ہیں۔ لیکن ٹورس کو حالات سے کوئی شکایت نہیں۔ اس نے بڑی خوشی سے بتایا۔ میں نے ایک سال میں اپنا وزن 55 کلو کم کیا ہے۔ کھاتا بہت تھا۔ موٹا ہو گیا تھا۔ اب کھانے کو نہیں ملتا۔ سمارٹ ہو گیا ہوں۔

ٹورس کی اس خوشی میں بھی اس کے اندر کے کرب کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔

وینزویلا تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ پچھلے سال عام انتخابات کے نتائج پر پیدا ہونے والے جھگڑوں نے ملک کو بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ صدر ماڈورو کا دعویٰ ہے کہ الیکشن انہوں نے جیتا جب کہ حزب اختلاف کے لیڈر گوائیڈو اپنی جیت کے دعوے دار ہیں۔ امریکہ سمیت پچاس کے لگ بھگ ملک گوائیڈو کی جیت کو تسلیم کرتے ہوئے صدر ماڈورو کو اقتدار چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ امریکہ نے دباؤ ڈالنے کے لیے تیل کی برآمد پر پابندیاں لگا دی ہیں جو ملک کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ صدر ماڈورو تو اپنا عہدہ نہیں چھوڑ رہے، البتہ بھوک کے ستائے ہوئے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، اور جو باقی رہ گئے ہیں ان کا کھانا پینا چھٹ گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG