اسرائیل کے شہر تل ابیب میں حال ہی میں ایک کلب میں 300 افراد نے ایک محفلِ موسیقی میں شرکت کی جس میں موسیقار ابیب گیفن نے پیانو بجا کر داد موصول کی۔
اس محفل میں شائقین نے سماجی دوری اختیار کی اور ماسک پہن رکھے تھے۔
پیر کی شام ہونے والی اس محفل میں انہی لوگوں نے شرکت کی جن کے پاس گرین پاسپورٹ تھے جس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو کرونا وائرس کی یا تو ویکسین مل چکی ہے یا ایسے افراد کرونا وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔
جہاں اس محفل کو موسیقار گیفن نے کرشمے سے تعبیر کیا۔ وہیں یہ گرین پاسپورٹ ابھی تک سب لوگوں کو میسر نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یہ کانسرٹ مستقبل کی پیش بندی کر رہا تھا۔ دنیا بھر کی حکومتوں کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد دستاویز کی مدد سے سفر، انٹرٹینمنٹ اور سماجی محافل کا راستہ کھل جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے فیصلہ سازوں کو خدشہ ہے کہ اس سے دنیا دولت اور ویکسین تک غیر مساوی رسائی کی وجہ سے مزید تقسیم ہو جائے گی۔
اسرائیل میں اس وقت دنیا کی سب سے تیز رفتار ویکسین مہم جاری ہے۔ ملک میں گرین پاسپورٹ ایک ایپ کے ذریعے ملتے ہیں۔
اسرائیل نے حال ہی میں یونان اور قبرص کے ساتھ معاہدے کیے ہیں کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے گرین پاسپورٹ کو قبول کریں گے۔ اس سے ان ممالک کے درمیان سیاحت اور سفر میں اضافہ ہو گا۔
اسرائیل کے وزیرِ صحت یولی ایڈلسٹین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو یا تو ویکسین لگوانے سے انکار کریں گے یا جن تک ویکسین نہیں پہنچ سکے گی۔ وہ پیچھے رہ جائیں گے۔
'اے پی' سے بات کرتے ہوئے گیفن نے کہا کہ مستقبل کا یہی راستہ ہے۔ لوگ نئی دنیا میں ان پاسپورٹس کے بغیر اپنی زندگی نہیں جی سکتے۔ ہم سب کو لازماً ویکسین لینی ہو گی۔
لیکن ویکسین تک دنیا میں تمام لوگوں کی رسائی نہیں ہے۔ چاہے اس کی وجہ رسد کے مسائل ہوں یا ویکسین کی قیمت۔ 93 لاکھ افراد کے ملک اسرائیل میں بھی ابھی تک آدھی جوان آبادی کو ویکسین نہیں مل سکی۔
لیکن جہاں اسرائیل تمام 16 برس سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین دے رہا ہے وہیں بہت سے ممالک کے پاس اتنی ویکسین کی خوراکیں نہیں ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر اور عالمی ادارۂ صحت کے ساتھ تعاون کے سینٹر 'نیشنل اینڈ گلوبل ہیلتھ' کے ڈائریکٹر لارنس گوسٹن نے کہا کہ انسانی حقوق کا بنیادی اصول عدل اور عدم تفریق ہے۔
'اے پی' سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں عدل اور مساوات کو لے کر ایک بڑا اخلاقی بحران پیدا ہو رہا ہے۔
انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ زیادہ آمدن والے ممالک جیسے اسرائیل، امریکہ یا یورپی یونین کے ممالک اس برس کے بعد ہرڈ امیونٹی حاصل کر لیں گے۔ یعنی ان کی اکثر آبادی کرونا وائرس سے محفوظ ہوجائے گی۔ مگر اکثر کم آمدن والے ممالک کے رہنے والے کئی برس تک ویکسین تک رسائی حاصل نہیں کر پائیں گے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم ایسے لوگوں کو پہلی ترجیح پر رکھیں گے جنہیں پہلے ہی اتنی سہولتیں حاصل ہیں؟
گزشتہ برس عالمی ادارۂ صحت نے 'کوویکس' کے نام سے ایک نیا پروگرام شروع کیا تھا جس کا منصوبہ تھا کہ ویکسین کی خوراکوں تک رسائی حاصل کر کے انہیں غریب ممالک تک اسی وقت پہنچانا جب زیادہ آمدن والے ممالک میں ویکسین دی جا رہی ہو گی۔
عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس نے کہا تھا کہ پروگرام اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور جو 21 کروڑ ویکسین کی خوراکیں حاصل ہوئی ہیں ان میں سے 80 فی صد محض 10 ممالک تک ہی پہنچائی جا سکی ہیں۔
اس پروگرام کے تحت بدھ کو افریقی ملک گھانا ان 92 ممالک میں سے پہلا ملک تھا جسے 'کوویکس' کے تحت ویکسین کی خوراک مل سکی۔
کوویکس نے اعلان کیا ہے کہ 'ایسٹرا زینیکا' کی ویکسین کی چھ لاکھ خوراکیں گھانا پہنچائی گئی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کا اس سال کا ہدف دو ارب کرونا ویکسین کی خوراکیں دنیا بھر میں پہنچانے کا تھا۔ گھانا کو دی گئی ویکسین کی خوراکیں اس ہدف کا ایک بہت ہی کم حصہ ہے۔ ایسے میں زیادہ آمدن والے ممالک نے گرین پاسپورٹ کے لاجسٹکس، سیکیورٹی، پرائیویسی اور پالیسی پر بات کرنا شروع کر دی ہے۔
برطانوی حکومت نے کہا کہ وہ 'کووِڈ اسٹیٹس سرٹیفیکیٹ' دینے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔ ایسے ہی یورپ میں کئی ممالک ایک مشترکہ ویکسین سرٹیفیکیشن سسٹم بنانے پر غور کر رہے ہیں۔