رسائی کے لنکس

امریکہ نے 10 سال میں پاکستان کو تین ارب 40 کروڑ ڈالر کی امداد دی: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کی طرف سے 2018 کے اوائل میں پاکستان کی فوجی امداد معطل کیے جانے کے باوجود امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) پاکستان کے لیے 2010 میں منظور کردہ چار ارب 30 کروڑ ڈالر کی اقتصادی امداد میں سے تین ارب 40 کروڑ ڈالر دے چکا ہے۔

اس بات کا انکشاف حال ہی میں پاکستان میں یو ایس ایڈ کے تحت چلنے والے منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کیا گیا ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور مخدوم خسرو بختیار کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے جاری 65 منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں تعلیم، صحت، توانائی، زراعت، بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو سمیت معاشی و اقتصادی شعبوں کے منصوبے شامل ہیں۔

خسرو بختیار نے کرونا وبا کے دوران یو ایس ایڈ کی جانب سے پاکستان کو تین کروڑ 20 لاکھ ڈالر الگ سے فراہم کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔

یو ایس ایڈ کے عہدے داروں نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں بھی اقتصادی تعاون جاری رکھنے کی اُمید ظاہر کی۔

خیال رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سیکیورٹی اور دفاعی شعبوں میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ امریکہ نے 2018 میں سیکیورٹی کی مد میں دی جانے والی امداد بھی معطل کر رکھی ہے۔

لیکن اس کے باوجود سماجی اور اقتصادی شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون جاری ہے۔

بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کی نوعیت وہ نہیں ہو سکتی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے رہی ہے۔

ان کے بقول دونوں ملک ایک دوسرے کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان کے لیے امریکہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور امریکہ بھی پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ 2018 میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر نہیں تھے۔ لیکن افغان امن عمل کی وجہ سے اب دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔

ان کے بقول خاص طور پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ سال دورہ واشنگٹن کے بعد دونوں ممالک اس نیتجے پر پہنچے ہیں کہ خواہ فوجی یا دفاعی تعلقات محدود بھی ہوں۔ لیکن دیگر شعبوں میں تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی، ماحولیاتی، سماجی اور علاقائی رابطوں میں تعاون کو فروغ دینے کی گنجائش موجود ہے۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یو ایس ایڈ پروگرام ایسے ممالک کے لیے ہی ہوتا ہے۔

خطے کے معروضی حالات کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان سماجی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون میں اضافے کے سوال پر ظفر جسپال کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ تعاون برقرار رہے گا۔

ان کے بقول پاکستان اقتصادی طور پر اگر مستحکم ہو گیا تو اس صورت میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اقتصادی شعبوں میں تعاون اور رابطوں میں اضافہ ہو گا۔

ظفر جسپال کے بقول ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ایک فرنٹ لائن ملک کے طور پر امریکہ کا اتحادی تھا۔ لیکن اب خطے کی صورتِ حال میں تبدیلی کے بعد امریکہ نے بھارت کی صورت میں نیا اتحادی چن لیا ہے۔

دوسری طرف اقتصادی اُمور کے تجزیہ کار عابد سلہری کا کہنا ہے کہ سماجی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو 'ٹریک ٹو' یا نرم سفارت کاری کہا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول جب بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری آتی ہے، یو ایس ایڈ یا اس نوعیت کی امداد تعلقات کو معمول پر لانے میں مددگار ثابت ہوتی رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے بقول اگر افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوئی حتمی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG