امریکی صدر براک اوباما نے امریکی سینیٹروں پر یہ سال ختم ہونے سے پہلے روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے کی توثیق کرنے پر زور دیا ہے۔صدر اوباما نے اپنے ہفتے وار ریڈیو اور انٹرنیٹ سے خطاب میں ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر ووٹنگ میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ یہ معاہدہ جس کےتحت امریکہ اور روس اپنے نصب شدہ جوہری ہتھیاروں میں 30 فی صد تک کمی کریں گے، امریکی قومی سیکیورٹی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
پرتگال میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس سے صدر اوباما نے قوم سے اپنے ہفتے وار خطاب میں کہا کہ سٹرٹیجک ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے کی منظوری میں ناکامی ایک خطرناک جواہے جس کے بعد امریکہ کے لیے اپنی سیکیورٹی کا تحفظ یقینی بنانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ روس میں ہمارے معانیہ کاروں کی عدم موجودگی کو پہلے ہی گیارہ ماہ ہوچکے ہیں اورہر گذرنے والے دن کے ساتھ، جس میں ہم ان کے سٹرٹیجک ہتھیاروں کی تصدیق نہیں کرپارہے، روس کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ہمارا اعتماد کم ہورہاہے۔ اگر امریکی سینیٹ معاہدے کی اس سال منظوری نہیں دیتی ، جسے وہاں چھ ماہ ہوچکے ہیں، اس دوران اس کی 18 سماعتیں ہوئیں اور تقریباً ایک ہزار سوالات کے جوابات دیے گئے۔۔تو اس پر جنوری میں نئے سرے سے کام شروع کرنا ہوگا۔
صدر اوباما نے کہا کہ ری پبلیکن اس پر ووٹنگ روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ سابق صدر رونلڈ ریگن کے اس اصول کے خلاف کام کررہے ہیں کہ بھروسہ کرو مگر تصدیق کے ساتھ۔
انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے نیواسٹارٹ کی منظوری کے بغیر اس سال کے اختتام کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس کی قیمت دوسرے مسائل پر روسی حمایت سے محرومی کی شکل میں چکانی پڑے گی۔
صدر اوباما نے کہا کہ اگرمعاہدے کی توثیق نہیں ہوتی تو ہم اپنے اس اتحاد کو خطرے میں ڈال دیں گے جسے ہم نے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے قائم کیاتھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم روس سے گذرنے والے ان راستوں سے بھی محروم ہوسکتے ہیں جن کے ذریعے ہم افغانستان میں اپنے فوجیوں کو سامان پہنچاتے ہیں۔ اور اس کی توثیق نہ ہونے پر جوہری سیکیورٹی پر عشروں کی امریکی قیادت اور اس معاملے پر عشروں دونوں جماعتوں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری سیکیورٹی اور دنیا میں ہمارا مقام داؤ پر لگ سکتا ہے۔
صدر اوباما اور روسی صدر دیمتری میدویوف نے نئے جوہری معاہدے پر اپریل میں دستخط کیے تھے۔
اس مسئلے پر ری پبلیکن مذاکرات کار سینیٹر جان کیل صدر اوباما کی جانب سے معاہدے کی توثیق کے لیےنئی کانگریس کے آنے سے قبل ووٹنگ کی کوشش کی، جوجنوری میں حلف اٹھائے گی اور جس میں اکثریت ری پبلیکنز کی ہوگی، مخالفت کررہے ہیں۔
صدر اوباما نے سینیٹرکیل اور دوسرے ری پبلیکنز کی طرف سے سامنے لائے جانے والے سوالات کا یہ کہتے ہوئے جواب دیا ہے کہ اسٹارٹ ٹریٹی سے امریکہ کے میزائل دفاعی نظام کی کوششوں کو نقصان نہیں پہنچے گا اور انہوں نے کہا کہ وہ اگلے دس برسوں کے دوران امریکی جوہری ڈھانچے کو جدید بنانے پر کم ازکم 85 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔
جب کہ ری پبلیکن پارٹی کا اس بار ہفتے وار خطاب اندورنی مسائل پر مرکوز تھا۔ ری پبلیکن سینیٹر مچ مک کونل نے انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے روزگاری میں کمی لانے کے لیے کافی اقدامات نہیں کررہی اور یہ شرح ابھی تک دس فی صد کے قریب ہے۔ انہوں نے صدر اوباما پر زور دیا کہ وہ اس سال ختم ہونے والی ٹیکس چھوٹ میں توسیع کریں کیونکہ ٹیکسوں میں اضافے سے مزید ملازمتیں ختم ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اب کانگریس کے لیے اپنی ترجیحات درست کرنے کا وقت ہے۔ اب وقت ہے کہ کانگریس ملازمتوں کے نئے مواقعوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور اس کا مطلب ہے کہ ٹیکسوں کو بڑھنے سے روکاجائے۔ یہ سیاسی بنیادوں پر ووٹنگ اور حکومتی اخراجات کو ایک جانب رکھنے کا وقت ہے جسےگذشتہ دوبرس سے انتظامیہ اور ڈیموکریٹک لیڈروں نے تمام دوسری ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا ہواہے۔ وقت تیزی سے گذررہاہے لیکن ابھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی ۔
مسٹر اوباما ٹیکس چھوٹ صرف ان خاندانوں کو دینے کے حق میں ہیں جن کی سالانہ آمدنی ڈھائی لاکھ ڈالر تک ہے، لیکن سینیٹر مک کونل کا کہنا ہے کہ امریکی نہیں چاہتے کہ کسی کو بھی زیادہ ٹیکسوں کاسامنا کرنا پڑے، خاص طورپر ایک ایسے وقت میں جب وہ کساد بازاری سے گذرہے ہیں۔