صدر ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا علاقہ تسلیم کیے جانے کا اعلان امریکہ کے دورے پر آئے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے لیے انتخابات میں فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نتن یاہو کی موجودگی میں گولان کو اسرائیل کا علاقہ تسلیم کیے جانے کے اعلان دستخظ کیے۔
گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیلی علاقہ تسلیم کرنے کا اعلان امریکہ کی عشروں پرانی پالیسی سے ایک ڈرامائی تبدیلی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے اس فیصلے کا اعلان گزشتہ جمعرات کو اپنی ایک ٹوئٹ میں کیا تھا جسے ایک ری پبلیکن صدر کی جانب سے نتن یاہو کے لیے ایک بڑی سیاسی امداد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ یہ مطالبہ فروری 2017 سے کر رہے تھے۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ کے دوران گولان کی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا اور 1981 میں اسے اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
نتن یاہو نے، جو 9 اپریل کو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، پیر کی صبح غزہ کی پٹی سے ایک راکٹ فائر ہونے کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنا دورہ مختصر کر کے واپس جا رہے ہیں۔
تل ابیب کے قریب راکٹ گرنے سے 7 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ راکٹ داغنے کا الزام حماس پر لگاتے ہوئے اسرائیل نے جوابی طور پر غزہ پر فضائی حملے کیے۔
اسرائیلی وزیر اعظم امریکہ کے چار روزہ دورے پر اتوار کے روز واشنگٹن پہنچے تھے۔
شام نے ٹرمپ کے اعلان کو اپنی علاقائی خودمختاری پر ایک وحشیانہ حملہ قرار دیتے ہوئے کہا گولان پر اس کا دعوی برقرار ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ گولان کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا کہ اقوام متحدہ کی پالیسی گولان پر سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے 15 ارکان نے 1981 میں شام سے چھینے گئے علاقے گولان میں اسرائیلی قوانین کے نفاذ اور عمل داری کو بین الاقوامی قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس سے اپنے فیصلے پردوبارہ غور کرنے کے لیے کہا تھا۔