رسائی کے لنکس

ارلی ووٹنگ: تقریباً 10 کروڑ امریکیوں نے ووٹ ڈال دیا


انڈیاناپولس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ارلی ووٹنگ کے لیے قطار میں کھڑی ہے۔ ایک رضاکار کافی تقسیم کر رہا ہے۔ 30 اکتوبر 2020
انڈیاناپولس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ارلی ووٹنگ کے لیے قطار میں کھڑی ہے۔ ایک رضاکار کافی تقسیم کر رہا ہے۔ 30 اکتوبر 2020

امریکہ کے تین نومبر کے صدارتی انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ارلی ووٹنگ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے۔

پیر کے روز تک ساڑھے نو کروڑ سے زائد امریکی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر چکے تھے، جو دورِ جدید میں انتخابات سے قبل ڈالے جانے والے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

الیکشن سے ایک روز پہلے تک ڈالے گئے ووٹوں کی یہ گنتی سن 2016 میں ڈالے جانے والے کل ووٹوں کے 69 فی صد کے برابر ہے۔

الیکشن کے دن سے قبل ڈاک اور ارلی ووٹنگ کا آپشن بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی سب سے اہم وجہ امریکہ میں عالمی وبا کرونا وائرس کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ ہے۔

امریکہ میں پیر تک کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ 36 ہزار سے بڑھ چکی تھی جب کہ متاثرین کی تعداد 95 لاکھ کے قریب تھی۔

صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ پر اُن کے ڈیموکریٹک مخالفین یہ کہتے ہوئے تنقید کرتے ہیں کہ وہ مہلک عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

'رائٹرز' اور ایساس پول کے 27 سے 29 اکتوبر کے درمیان کیے گئے رائے عامہ کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ جو بائیڈن 51 فی صد کے تناسب سے آگے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ کے حق میں 43 فی صد رائے عامہ ہے۔

لیکن سوئنگ ریاستوں میں صدر ٹرمپ کے جلسوں کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صورتِ حال میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔

دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان اصل مقابلہ ریاست ایری زونا، فلوریڈا اور نارتھ کیرولائنا میں متوقع ہے جہاں کے نتائج حتمی فیصلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ تین نومبر کو الیکشن کے دن بڑی تعداد میں ری پبلکن باہر نکل کر صدر ٹرمپ کے لیے اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔ جب کہ بڑے پیمانے پر ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹوں پر صدر ٹرمپ یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ان میں فراڈ ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تین نومبر 2020 کو 2016 کے مقابلے میں کہیں زیادہ ووٹ ڈالے جائیں گے۔

یاد رہے کہ 2016 میں مجموعی طور پر 13 کروڑ 80 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے جن میں سے چار کروڑ 70 لاکھ ارلی ووٹنگ کے تھے۔

چونکہ اس بار پیر کے روز تک تقریباً 10 کروڑ ووٹ ڈالے جا چکے ہیں، اس لیے تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ چار سال پہلے کے مقابلے میں اس بار ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔

XS
SM
MD
LG