امریکی عدالت عظمیٰ نے منگل کے روز ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پانچ مسلمان اکثریتی ملکوں کے شہریوں پر سفر کی پابندیوں کے حکم نامے کو برقرار رکھا ہے، جس فیصلے کے نتیجے میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک سب سے بڑی متنازع پالیسی پر عمل درآمد میں ایک کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔
اس فیصلے کے حق میں پانچ، جب کہ مخالفت میں چار جج شامل تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امریکی امیگریشن قوانین کے تحت صدر کے پاس قومی سلامتی کی بنیاد پر غیر ممالک سے آنے والوں کے سفر پر پابندی عائد کرنے کا صوابدیدی اختیار موجود ہے، جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے دلیل دی ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ ’’صدر نے امریکی شہریت کے ایکٹ کے تحت اپنا وسیع تر صوابدیدی اختیار استعمال کیا ہے‘‘۔
اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے، چیف جسٹس جان رابرٹس نے تحریر کیا ہے کہ ’امیگریشن اور نیشنلٹی ایکٹ‘ کی رو سے صدر کے پاس وسیع تر صوابدیدی اختیارات ہیں، جن کی مدد سے وہ غیر ملکیوں کے امریکہ میں داخلے کو معطل قرار دے سکتے ہیں۔
عدالت کے چار لبرل ججوں نے فیصلے کی مخالفت کی۔
ستمبر میں جاری ہونے والے نام نہاد ’’سفری پابندی‘‘ کے قانون کے تحت، پانچ مسلمان ملکوں کے شہری جن میں ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن شامل ہیں، اور ساتھ ہی شمالی کوریا اور ونزویلا کی حکومت سے منسلک چند افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔ اس سے قبل جاری ہونے والے حکم ناموں کو عدالتوں نے ناجائز قرار دیا تھا۔ (پہلی فہرست میں وسط افریقی ملک، شاڈ کا نام بھی شامل تھا، جسے بعدازاں واپس لیا گیا)۔
اس معاملے پر عدالتی فیصلے سے قبل 16 ماہ تک انتظامیہ اور مخالفین کے درمیان دلائل کا سلسلہ جاری رہا۔
انتظامیہ صدر کے سفری پابندی کے حکم نامے کو قومی سلامتی کی بنیاد پر دفاع کرتی رہی، جب کہ مخالفین کا دعویٰ تھا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نظریاتی سوچ پر مبنی ایک اقدام ہے۔