امریکہ لگ بھگ تین سال کی علیحدگی کے بعد ایک مرتبہ پھر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں واپسی کے لیے تیار ہے۔ سابق صدر ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں متنازع کونسل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی 47 رکنی کونسل اراکین میں شمولیت کے لیے 18 نئے اراکین کے لیے ووٹ دے گی۔
امریکہ ان امیدواروں میں شامل ہے جسے نشست حاصل کرنے کے لیے سادہ اکثریت کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ تاہم اس کے علاقائی گروپ میں کسی بھی ریاست کو کوئی مقابلے کا سامنا نہیں ہیں جس سے ایک پیشگی نتیجہ آنے کا امکان ہے۔
انسانی حقوق کونسل کی نشستوں کے امیدواروں کے لیے مختلف ممالک بشمول ارجنٹائن، بھارت، لیتھوانیا، قطر اور صومالیہ شامل ہیں۔
ان امیدواروں میں کچھ ممالک اپنے انسانی حقوق کے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں زیادہ متنازع ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں اقوامِ متحدہ کے ڈائریکٹر لوئس شابنو کا کہنا ہے کہ اس سال انسانی حقوق کونسل کے ووٹ میں مقابلے کی عدم موجودگی لفظ 'الیکشن' کا مذاق بناتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ''کیمرون، اریٹیریا اور متحدہ عرب امارات جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو منتخب کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی رکن ریاستیں انسانی حقوق کے تحفظ کے کونسل کے بنیادی مشن سے متعلق سنجیدہ نہیں ہیں۔''
انہوں نے ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ نااہل امیدواروں کے لیے ووٹ نہ دیں۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کونسل میں جو ممالک شامل ہوتے ہیں ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک اور بیرونِ ملک دونوں میں ''انسانی حقوق کے اعلیٰ معیارات کا فروغ اور تحفظ برقرار رکھیں گے۔''
نامکمل کونسل
انسانی حقوق کونسل کی مخلوط شہرت ہے۔ سفارت کار کہتے ہیں کہ اس نے شام جیسی جگہوں پر جنگی جرائم پر کچھ اہم اور ٹھوس رپورٹس تیار کی ہیں اور شمالی کوریا، ایران، میانمار اور دیگر ممالک میں ہونے والی زیادتیوں پر روشنیاں ڈالی ہیں۔
البتہ اسے اپنی توجہ اسرائیل پر مرکوز رکھنے اور اپنے اراکین میں ان ممالک کو شامل کرنے پر مسلسل تنقید کا سامنا رہتا ہے جن کے خود کے انسانی حقوق کے ریکارڈ خراب ہیں جیسے چین، روس اور پاکستان۔
انسانی حقوق کونسل کا قیام 2006 میں غیرفعال اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کے متبادل کے طور پر کیا گیا تھا۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس کی رکنیت نہ لینے کا انتخاب کیا اور امریکہ 2009 تک اس کا حصہ نہیں بنا تھا۔
بعد ازاں اس وقت کے صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ کونسل کے ساتھ کام کر کے اس میں بہتری چاہتی ہے جس کے بعد 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے علیحدگی کرلی تھی۔