رسائی کے لنکس

چینی غبارہ گرائے جانے کے بعد امریکہ اور چین میں ہاٹ لائن رابطوں کی اہمیت بڑھ گئی


امریکی فوجی ایف بائیس طیارے کے ذریعے گرائے گئے چین کے غبارے کے ملبے کو سمندر سے نکال رہے ہیں۔
امریکی فوجی ایف بائیس طیارے کے ذریعے گرائے گئے چین کے غبارے کے ملبے کو سمندر سے نکال رہے ہیں۔

امریکہ کی فضائی حدود پار کرنے والے ایک بڑے چینی غبارے کو مار گرانے کے چند ہی گھنٹوں بعد وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے چینی ہم منصب سے خصوصی "کرائسز لائن" کے ذریعے رابطہ کیا، جس کا مقصد ایک فوری جنرل ٹو جنرل کی سطح پر تناؤ کو کم کرنے کے لیے بات کرنا تھا۔

لیکن، خبررساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز آسٹن کی کوشش کے جواب میں چینی وزیر دفاع وی فینگے نے لائن پر آنے سے انکار کردیا۔

چین کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے غبارے کو مار گرائے جانے کے بعد آسٹن کی کال لینے سے انکار کر دیا کیونکہ امریکہ نے بات چیت اور تبادلے کے لیے ’’مناسب ماحول پیدا نہیں کیا تھا‘‘۔

جمعرات کو دیر گئے جاری کردہ ایک بیان میں وزارت کے ترجمان کے حوالے سے الزام لگایا گیا کہ امریکی کارروائی نے ’’بین الاقوامی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور ایک نقصان دہ مثال قائم کی ہے‘‘۔

کسی بحران میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکہ کی طرف سے اپنے چینی ہم منصبوں کو فون یا ویڈیو لائن پر لانے کی بات ہوتو دو طرفہ رابطوں میں فقدان ایک ایسا تجربہ رہا ہے جس نے امریکی کمانڈروں کو دہائیوں سے مایوس کیا ہے۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق رابطوں میں کمی امریکہ اور چین کے تعلقات کو درپیش خطرات کو ایسے وقت میں بڑھا رہا ہے جب چین کی فوجی طاقت بڑھ رہی ہے اور امریکہ کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے۔

مخالف دارالحکومتوں میں جرنیلوں کے لیے اس سہولت کے بغیر کہ وہ فوری طور پر معاملات کو حل کر سکیں امریکیوں کو خدشہ ہے کہ غلط فہمیاں، غلط رپورٹیں یا حادثاتی تصادم ایک معمولی صورت حال کو بڑے تصادم میں تبدیل کر سکتا ہے۔

جرمن مارشل فنڈ تھنک ٹینک میں انڈو پیسیفک اسٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر بونی گلیزر ن کہتے ہیں کہ یہ مواصلاتی آلات میں کسی تکنیکی کمی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ چین اور امریکہ کے ملٹری ٹو ملٹری ہاٹ لائنز کی قدر اور مقصد کو دیکھنے کے انداز میں ایک بنیادی فرق ہے۔

امریکی فوجی رہنماؤں کو واشنگٹن تا بیجنگ ہاٹ لائنز پر چین کی فوج کے ساتھ بھڑک اٹھنے والے واقعات کو کم کرنے کے طریقے کے چینی سیاسی نظام کا سامنا ہے جو سیاسی رہنماؤں کی طرف سے سوچی سمجھی مشاورت پر چلتا ہے اور اس میں حریف جرنیلوں کے درمیان انفرادی طور پر بات چیت کوئی گنجائش نہیں ہے۔

دوسری طرف چینی رہنماؤں کو ہاٹ لائن کے پورے امریکی تصور پر شک ہے۔ چینی اسے کسی امریکی اشتعال انگیزی کے نتائج سے باہر نکلنے کی کوشش کے امریکی چینل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

نائب وزیر دفاع ایلی رتنر نے جمعرات کو چین کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری مواصلات کی دشواری کے بارے میں کہا کہ یہ واقعی خطرناک ہے۔ انہوں نے یہ بات ڈیموکریٹک سینیٹر جیف مرکلے کے ایک سوال کے جواب میں کہی جب انہوں نے بیجنگ اور واشنگٹن کے ہاٹ لائن سیٹ اپ پر چین کی طرف سے رد کیے جانے کے بارے میں مزید جاننا چاہا۔

دفاعی اہل کار نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کو بتایا کہ امریکی جنرل چینی ہم منصبوں کے ساتھ رابطے کی مزید لائنیں کھولنے کے لیے اپنی کوششوں پر قائم ہیں۔

صدر جو بائیڈن نے چین کے ساتھ امریکی اختلافات کو "ذمہ داری کے ساتھ " نمٹانے کے لیے مواصلات کی لائنیں بنانے پر زور دیا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور بائیڈن کے درمیان نومبر میں ہونے والی ملاقات میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دونوں حکومتیں مذاکرات کا ایک سلسلہ دوبارہ شروع کریں گی جو چین نے اگست میں تائیوان کے اس وقت کی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے دورے کے بعد بند کر دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے امریکہ نے چینی غبارے کی آمد کے بعد وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ چین کا غبارہ جاسوسی مقاصد کے لیے تھا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک شہری غبارہ تھا جسے موسمیاتی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

سال 2008 کے ایک معاہدے کے تحت، چین-امریکہ ملٹری ہاٹ لائن ایک "ملٹی اسٹپ پراسیس" یعنی کئی اقدامات پر مبنی طریقہ کار کے مترادف ہے جس کے ذریعے ایک دارالحکومت دوسرے کو "انکرپٹڈ" لائنوں پر اعلیٰ حکام کے درمیان مشترکہ کال یا ویڈیو کانفرنس کے لیے درخواست بھیجتا ہے۔ معاہدہ دوسری طرف کو جواب دینے کے لیے 48 گھنٹے تک کا وقت دیتا ہے جبکہ اس معاہدے میں کوئی بھی چیز اعلیٰ حکام کو فوری طور پر بات کرنے سے نہیں روکتی ہے۔

(اس خبر میں شامل مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG