اسلام آباد —
امریکہ کا کہنا ہے کہ 2014ء کے بعد بھی انسداد دہشت گردی میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہے گا اور اسی بنا پر اس ملک کے لیے فوجی و سویلین امداد کی مد میں 2015ء کے لیے ایک ارب ڈالر تجویز کیے گئے ہیں۔
اوباما انتظامیہ نے مالی سال 2015ء کی بجٹ تجاویز منظوری کے لیے کانگریس کو بھیج دی ہیں۔
پاکستان انسداد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی اور ایک ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس دوران سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے لگ بھگ 40 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
رواں سال کے اواخر میں جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ خطے کی صورتحال ایک بار پھر غیر مستحکم ہوسکتی ہے۔
تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے لیے اپنی امداد اور حمایت جاری رکھے گا۔
کانگریس میں پیش کی گئی بجٹ تجاویز میں افغانستان، عراق اور پاکستان کے لیے امداد کی مد میں 5.1 ارب ڈالرز رکھے گئے ہیں۔
پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد میں سے 28 کروڑ ڈالرز سکیورٹی فورسز کی اعانت کے لیے جب کہ باقی رقم اقتصادی امداد کے طور پر دی جائے گی۔
معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات چلتے رہیں لیکن اس کی نوعیت میں فرق آ جائے گا۔
’’امریکہ کا مفاد یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں استحکام رہے اور یہاں پر دہشت گرد مضبوط نہ ہوں کیونکہ ان کو یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ اگر یہاں کے حالات بگڑتے ہیں تو افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ دوبارہ نہ نمودار ہو جائے تو یہ مفاد امریکہ کا اس علاقے میں 2015ء کے بعد بھی جاری رہے گا۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق مالی سال 2015ء میں پاکستان کے لیے امداد دہشت گردی سے نمٹنے، خطے میں سلامتی کی صورتحال کو مضبوط بنانے اور غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں استحکام کو برقرار رکھنے کی امریکی اسٹریٹیجک ترجیحات کے ضمن میں بہت اہم ہے۔
بیان کے مطابق 28 کروڑ ڈالر سے پاکستان کی فوج، فرنٹیئر کور، فضائیہ اور بحریہ کی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کی استعداد کار میں اضافے اور اپنی سرحدوں میں دہشت گردی کے خطرات کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے میں انہیں مدد ملے گی۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ خطے میں سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور افغانستان امریکہ کے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
’’امریکہ نے بار بار یہ کہا ہے کہ وہ یہاں سے چلے جانے کے باوجود بھی اس علاقے کو خیرباد نہیں کہے گا بلکہ اپنے مفادات کے لیے کام کرتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں افغانستان کے لیے بھی رقم موجود ہے اور پاکستان کے لیے بھی ہے، افغانستان کے لیے رقم بعد بھی بڑھ جائے گی جب تاخیر کے شکار افغانستان سے سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔ پاکستان کے لیے امداد کیری لوگر برمن بل کے تحت مل رہی تھی جو اس سال ختم ہو جائے گا تو یہ اس کے علاوہ ایک نئی کیٹگری میں اب ایک ارب ڈالر کی امداد دیں گے۔‘‘
پاکستان میں اکثر سیاسی و سماجی حلقے بھی یہ کہتے آئے ہیں کہ رواں سال کے اواخر میں تمام غیر ملکی افواج کے انخلا سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے لیے امریکہ کو ماضی کی غلطی دہرانے کی بجائے ٹھوس حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
امریکہ افغانستان کے ساتھ ایک دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ تجویز کر چکا ہے جس کے تحت 2014ء کے بعد ایک محدود تعداد میں اس کے فوجی افغانستان میں رہیں گے۔ لیکن تاحال افغان صدر کی طرف سے دستخط نا ہونے کی وجہ سے یہ معاہدہ حتمی طور پر منظور نہیں ہو سکا ہے۔
امریکی بجٹ میں تجویز کردہ امداد کی منظوری کی صورت میں پاکستان کو یہ رقم اکتوبر سے ملنا شروع ہو گی۔
اوباما انتظامیہ نے مالی سال 2015ء کی بجٹ تجاویز منظوری کے لیے کانگریس کو بھیج دی ہیں۔
پاکستان انسداد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی اور ایک ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس دوران سکیورٹی اہلکاروں سمیت اس کے لگ بھگ 40 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
رواں سال کے اواخر میں جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ خطے کی صورتحال ایک بار پھر غیر مستحکم ہوسکتی ہے۔
تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے لیے اپنی امداد اور حمایت جاری رکھے گا۔
کانگریس میں پیش کی گئی بجٹ تجاویز میں افغانستان، عراق اور پاکستان کے لیے امداد کی مد میں 5.1 ارب ڈالرز رکھے گئے ہیں۔
پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد میں سے 28 کروڑ ڈالرز سکیورٹی فورسز کی اعانت کے لیے جب کہ باقی رقم اقتصادی امداد کے طور پر دی جائے گی۔
معروف تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات چلتے رہیں لیکن اس کی نوعیت میں فرق آ جائے گا۔
’’امریکہ کا مفاد یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں استحکام رہے اور یہاں پر دہشت گرد مضبوط نہ ہوں کیونکہ ان کو یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ اگر یہاں کے حالات بگڑتے ہیں تو افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ دوبارہ نہ نمودار ہو جائے تو یہ مفاد امریکہ کا اس علاقے میں 2015ء کے بعد بھی جاری رہے گا۔‘‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق مالی سال 2015ء میں پاکستان کے لیے امداد دہشت گردی سے نمٹنے، خطے میں سلامتی کی صورتحال کو مضبوط بنانے اور غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں استحکام کو برقرار رکھنے کی امریکی اسٹریٹیجک ترجیحات کے ضمن میں بہت اہم ہے۔
بیان کے مطابق 28 کروڑ ڈالر سے پاکستان کی فوج، فرنٹیئر کور، فضائیہ اور بحریہ کی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کی استعداد کار میں اضافے اور اپنی سرحدوں میں دہشت گردی کے خطرات کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے میں انہیں مدد ملے گی۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ خطے میں سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور افغانستان امریکہ کے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
’’امریکہ نے بار بار یہ کہا ہے کہ وہ یہاں سے چلے جانے کے باوجود بھی اس علاقے کو خیرباد نہیں کہے گا بلکہ اپنے مفادات کے لیے کام کرتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں افغانستان کے لیے بھی رقم موجود ہے اور پاکستان کے لیے بھی ہے، افغانستان کے لیے رقم بعد بھی بڑھ جائے گی جب تاخیر کے شکار افغانستان سے سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔ پاکستان کے لیے امداد کیری لوگر برمن بل کے تحت مل رہی تھی جو اس سال ختم ہو جائے گا تو یہ اس کے علاوہ ایک نئی کیٹگری میں اب ایک ارب ڈالر کی امداد دیں گے۔‘‘
پاکستان میں اکثر سیاسی و سماجی حلقے بھی یہ کہتے آئے ہیں کہ رواں سال کے اواخر میں تمام غیر ملکی افواج کے انخلا سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے لیے امریکہ کو ماضی کی غلطی دہرانے کی بجائے ٹھوس حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
امریکہ افغانستان کے ساتھ ایک دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ تجویز کر چکا ہے جس کے تحت 2014ء کے بعد ایک محدود تعداد میں اس کے فوجی افغانستان میں رہیں گے۔ لیکن تاحال افغان صدر کی طرف سے دستخط نا ہونے کی وجہ سے یہ معاہدہ حتمی طور پر منظور نہیں ہو سکا ہے۔
امریکی بجٹ میں تجویز کردہ امداد کی منظوری کی صورت میں پاکستان کو یہ رقم اکتوبر سے ملنا شروع ہو گی۔