شام کے مطلق العنان صدر، بشارالاسد کے اتوار کی تقریر سے اُن لوگوں کو مایوسی ہوئی ہوگی جنہیں توقع تھی کہ وُہ کوئی مصالحانہ رویّہ اختیار کریں گے۔
اور جیسا کہ ’انٹرنیشنل ٹربیون‘ اخبار کہتا ہے، توقع کے برعکس، اُنہوں نے چھ ماہ کے وقفے کے بعد اس تقریر میں اپنے بڑے پُراعتماد اور مخاصمانہ لہجے سے اپنے ناقدین پر واضح کر دیا کہ وُہ عوام کی شکایات سے کس قدر لاتعلّق ہیں۔
اِس میں، اُنہوں نےعوامی تحریک کو کچلنے کے اقدامات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی، اپنے پیروکاروں کو مخالفین کے خلاف لڑائی جاری رکھنے اور اُن کی مخبری کرنے کے لئے اُکسایا۔ اور اس خونی خانہ جنگی کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کی جو کوششیں حال ہی میں کی جارہی تھیں اُن سب پر پانی پھیر دیا۔
مسٹر اسد نے ایک نئی کابینہ کی پیش کش کی اور پچھلے سال جو آئین منظور کیاگیا تھا، اُس کی جگہ ایک نیا آئین اپنانے کی بھی پیش کش کی۔ انہوں نےصرف اُن مخالف تنظیموں سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جنہیں اُن کی حکومت برداشت کرتی ہے، جب کہ اُنہوں نے شام کی مسلح حزب اختلاف کے ساتھ جو اُن کی حکومت سے برسرپیکار ہے، کسی قسم کے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا ۔ اور اُس کے اس مطالبے کو خاص طور پر نظرانداز کردیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ ملک کے شمال اور مشرق کے وسیع علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور روس کی طرح کے شام کے پُرانے اتّحادی یہ اشارہ دے چُکے ہیں کہ مسٹر اسد اب باغیوں کو شکست نہیں دے سکتے۔
انہوں نے ثالثی کی اُن کوششوں کو غیر ملکی مداخلت قرار دے کر رد کر دیا ہے جو اقوام متحدہ کے سر کردہ سفیر، الجزائر کے لخدر براہیمی کی سرکردگی میں ہو رہی ہیں ۔مسٹر براہیمی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر دونوں فریق مذاکرات نہیں کرتے ، تو اندیشہ ہے کہ شام قومی انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اسد کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ممکن ہے کہ مسٹر براہیمی اپنا مشن جاری رکھنے سے انکار کر دیں۔ اُس صورت میں شام کی حزب اختلاف کی حمائت کرنے والے ملکوں کے لئے، جن میں امریکہ، اس کے مغربی اتّحادی ملک، ترکی اور بعض عرب ملک شامل ہیں، اس ناخوشگوار اقدام کے سوا کوئی چارہ نہ رہے کہ وُہ زیادہ جارحانہ انداز میں مداخلت کریں۔
یا، بصورت دیگر، اِس لڑائی کو غیرمعینہ مدت کے لئے جاری رہنے دیں، جس میں پہلے ہی ساٹھ ہزار افراد اب تک ہلاک ہو چُکے ہیں، اور جیسا کہ امریکی محکمہٴ خارجہ کی ایک ترجمان نے کہا ہے، شامی حکومت جانتے بوجھتے ہوئے فرقہ وارارنہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اوراپنے عوام کو ہلاک کر رہی ہے۔
وینیزویلا کے صدر ہیوگہ شاویز کئی ہفتوں سے کیو با کے ایک اسپتال میں سرطان کے علاج کے لئے داخل ہیں، جہاں اُن کا 11 دسمبر کو آپریشن ہوا تھا ۔
وینیزویلا کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن کے بعد پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ لیکن، جیسا کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہےکہ وینیزویلا کے صدر دو سال سے سرطان کا علاج کرا رہے ہیں۔ لیکن، ان کی تشخیص یا علاج کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی جارہی۔
اکتوبرکےانتخابات میں شاویز دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے اور آئین کے مطابق اُنہیں
جمعرات کے روز اگلے چھ سال کے لئے صدر کے عہدے کا حلف اُٹھانا ہے۔ لیکن وینیزویلا کے عہدہ دار کہتے ہیں کہ اگر سخت بیماری کی وجہ سے حلف اُٹھانے کے قابل نہ ہوئے تو حلف برداری کی تقریب موٴخر کر دی جائے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے بار ے میں ملک کے آئین میں ابہام ہے۔ لیکن، ایک بات میں آئین بالکل واضح ہے اور وُ ہ یہ کہ اگر صدر کا انتقال ہو جائے تو نئے صدر کے لئے ایک ماہ کے اندراندر نیا انتخاب ہونا چاہئیے۔
اور اخبار کی نظر میں شاویز کے بعد کے دور میں یہ اس بات کا نہائت کڑا امتحان ہو گا کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ملک کے حکمران طبقے کا اندرونی حلقہ کیوبا میں شاویز کےگرد جمع ہوتا آیا ہے،جو شائد یہ سوچ رہا ہے کہ انتخابات کو ملتوی کیا جائے یا اُنہیں سرے سے ہونے ہی نہ دیا جائے ،کیونکہ، بقول اخبار کے، اس حلقے اور کیوبا کی حکومت کو اندیشہ ہے کہ اگر غیر جانب دار انتخابات ہوئے ، تو ملک کے حزب اختلاف کے لیڈر آں ریک کیپ ری لس کامیاب ہوجا ئیں گے، جو اکتوبر انتخابات میں ہار گئے تھے۔
لیکن، جو اخبار کےمطابق، وزیر خارجہ جان مڈُورو کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔ مڈُورو کو شاویز، آپریشن سے قبل اپناجا نشین مقرر کر گئے تھےاور اگر وہ صدر بنے تو یہ اغلب ہے کہ وہ سستے داموں کیوبا کوتیل فراہم کرتے رہیں گے۔ اخبار کہتا ہے کہ اسی کی بدولت کیوبا کی کمیونسٹ حکومت بچی ہوئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اسی حقیقت کے پیش نظر امریکہ اور وینیزویلا کے دوسرے پڑوسیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وُہ انتخابات کے انعقاد پر اصرار کریں، جو آزادانہ بھی ہوں اور منصفانہ بھی۔
اخبار’ یُو ایس اے ٹُوڈے‘ کہتا ہے کہ سنہ 1940 اور سنہ 20100 کے درمیانی عرصے میں امریکہ کی آبادی میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر والے افراد کا تناسب دوگنا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے سوشیل سیکیورٹی اور میڈی کئیر جیسے پروگراموں کے تحت جن مراعات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اُن کو برقرار رکھنا موجودہ مالی استعداد کے پیش نظر ممکن نہیں رہا۔
اس کے علاوہ اخبار کہتا ہےکہ دونوں قومی پارٹیوں کے نظریاتی اساس میں عشروں پر محیط تبدیلی بھی آئی ہے۔چنانچہ، اگر ایک طرف تمام قدامت پسندقانون ساز ، ری پبلکن جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں، تو دوسری طرف اُن کے لبرل مدّ مقابل ڈیموکریٹک حلقے میں داخل ہوگئے ہیں۔
یہ لبرل طبقہ سوشیل سیکیورٹی، میڈی کئیر اور حکومت کی طرف سے دی گئی دوسر ی مراعات کو امریکی عوام کے ساتھ ایک ایسے مقدّس معاہدے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس کو با لکل نہیں چھیڑنا چاہئیے۔ دوسری طرف، قدامت پسند ارکان ان ضمانتوں کو امریکی مزدورو اور خاص طور پر جوان مزدورو ں کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس سے اس ملک کا مقدّس اتّحاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔چنانچہ، یہ نظریات ایک دوسرے کی ضدّ میں ہیں۔ لیکن ،اس کے باوجود اخبار سمجھتا ہے کہ کانگریس کو بالآخر ان مسائل کو حل کرنا پڑے گا جس کی سیدھی سادی وجہ حساب ہے۔ امریکی عوام کے پاس سرمائے کی محدود رقم ہے ، لہٰذا، جونہی کانگریس کو اس حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا تو وہ مالی مسئلے کی اصل جڑ یعنی اخراجات کے مسئلے سے نمٹنے میں سنجیدہ ہو جائے گی۔
اور جیسا کہ ’انٹرنیشنل ٹربیون‘ اخبار کہتا ہے، توقع کے برعکس، اُنہوں نے چھ ماہ کے وقفے کے بعد اس تقریر میں اپنے بڑے پُراعتماد اور مخاصمانہ لہجے سے اپنے ناقدین پر واضح کر دیا کہ وُہ عوام کی شکایات سے کس قدر لاتعلّق ہیں۔
اِس میں، اُنہوں نےعوامی تحریک کو کچلنے کے اقدامات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی، اپنے پیروکاروں کو مخالفین کے خلاف لڑائی جاری رکھنے اور اُن کی مخبری کرنے کے لئے اُکسایا۔ اور اس خونی خانہ جنگی کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کی جو کوششیں حال ہی میں کی جارہی تھیں اُن سب پر پانی پھیر دیا۔
مسٹر اسد نے ایک نئی کابینہ کی پیش کش کی اور پچھلے سال جو آئین منظور کیاگیا تھا، اُس کی جگہ ایک نیا آئین اپنانے کی بھی پیش کش کی۔ انہوں نےصرف اُن مخالف تنظیموں سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جنہیں اُن کی حکومت برداشت کرتی ہے، جب کہ اُنہوں نے شام کی مسلح حزب اختلاف کے ساتھ جو اُن کی حکومت سے برسرپیکار ہے، کسی قسم کے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا ۔ اور اُس کے اس مطالبے کو خاص طور پر نظرانداز کردیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ ملک کے شمال اور مشرق کے وسیع علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور روس کی طرح کے شام کے پُرانے اتّحادی یہ اشارہ دے چُکے ہیں کہ مسٹر اسد اب باغیوں کو شکست نہیں دے سکتے۔
انہوں نے ثالثی کی اُن کوششوں کو غیر ملکی مداخلت قرار دے کر رد کر دیا ہے جو اقوام متحدہ کے سر کردہ سفیر، الجزائر کے لخدر براہیمی کی سرکردگی میں ہو رہی ہیں ۔مسٹر براہیمی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر دونوں فریق مذاکرات نہیں کرتے ، تو اندیشہ ہے کہ شام قومی انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اسد کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ممکن ہے کہ مسٹر براہیمی اپنا مشن جاری رکھنے سے انکار کر دیں۔ اُس صورت میں شام کی حزب اختلاف کی حمائت کرنے والے ملکوں کے لئے، جن میں امریکہ، اس کے مغربی اتّحادی ملک، ترکی اور بعض عرب ملک شامل ہیں، اس ناخوشگوار اقدام کے سوا کوئی چارہ نہ رہے کہ وُہ زیادہ جارحانہ انداز میں مداخلت کریں۔
یا، بصورت دیگر، اِس لڑائی کو غیرمعینہ مدت کے لئے جاری رہنے دیں، جس میں پہلے ہی ساٹھ ہزار افراد اب تک ہلاک ہو چُکے ہیں، اور جیسا کہ امریکی محکمہٴ خارجہ کی ایک ترجمان نے کہا ہے، شامی حکومت جانتے بوجھتے ہوئے فرقہ وارارنہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اوراپنے عوام کو ہلاک کر رہی ہے۔
وینیزویلا کے صدر ہیوگہ شاویز کئی ہفتوں سے کیو با کے ایک اسپتال میں سرطان کے علاج کے لئے داخل ہیں، جہاں اُن کا 11 دسمبر کو آپریشن ہوا تھا ۔
وینیزویلا کی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن کے بعد پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ لیکن، جیسا کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہےکہ وینیزویلا کے صدر دو سال سے سرطان کا علاج کرا رہے ہیں۔ لیکن، ان کی تشخیص یا علاج کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی جارہی۔
اکتوبرکےانتخابات میں شاویز دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے اور آئین کے مطابق اُنہیں
جمعرات کے روز اگلے چھ سال کے لئے صدر کے عہدے کا حلف اُٹھانا ہے۔ لیکن وینیزویلا کے عہدہ دار کہتے ہیں کہ اگر سخت بیماری کی وجہ سے حلف اُٹھانے کے قابل نہ ہوئے تو حلف برداری کی تقریب موٴخر کر دی جائے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے بار ے میں ملک کے آئین میں ابہام ہے۔ لیکن، ایک بات میں آئین بالکل واضح ہے اور وُ ہ یہ کہ اگر صدر کا انتقال ہو جائے تو نئے صدر کے لئے ایک ماہ کے اندراندر نیا انتخاب ہونا چاہئیے۔
اور اخبار کی نظر میں شاویز کے بعد کے دور میں یہ اس بات کا نہائت کڑا امتحان ہو گا کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ملک کے حکمران طبقے کا اندرونی حلقہ کیوبا میں شاویز کےگرد جمع ہوتا آیا ہے،جو شائد یہ سوچ رہا ہے کہ انتخابات کو ملتوی کیا جائے یا اُنہیں سرے سے ہونے ہی نہ دیا جائے ،کیونکہ، بقول اخبار کے، اس حلقے اور کیوبا کی حکومت کو اندیشہ ہے کہ اگر غیر جانب دار انتخابات ہوئے ، تو ملک کے حزب اختلاف کے لیڈر آں ریک کیپ ری لس کامیاب ہوجا ئیں گے، جو اکتوبر انتخابات میں ہار گئے تھے۔
لیکن، جو اخبار کےمطابق، وزیر خارجہ جان مڈُورو کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔ مڈُورو کو شاویز، آپریشن سے قبل اپناجا نشین مقرر کر گئے تھےاور اگر وہ صدر بنے تو یہ اغلب ہے کہ وہ سستے داموں کیوبا کوتیل فراہم کرتے رہیں گے۔ اخبار کہتا ہے کہ اسی کی بدولت کیوبا کی کمیونسٹ حکومت بچی ہوئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اسی حقیقت کے پیش نظر امریکہ اور وینیزویلا کے دوسرے پڑوسیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وُہ انتخابات کے انعقاد پر اصرار کریں، جو آزادانہ بھی ہوں اور منصفانہ بھی۔
اخبار’ یُو ایس اے ٹُوڈے‘ کہتا ہے کہ سنہ 1940 اور سنہ 20100 کے درمیانی عرصے میں امریکہ کی آبادی میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر والے افراد کا تناسب دوگنا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے سوشیل سیکیورٹی اور میڈی کئیر جیسے پروگراموں کے تحت جن مراعات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اُن کو برقرار رکھنا موجودہ مالی استعداد کے پیش نظر ممکن نہیں رہا۔
اس کے علاوہ اخبار کہتا ہےکہ دونوں قومی پارٹیوں کے نظریاتی اساس میں عشروں پر محیط تبدیلی بھی آئی ہے۔چنانچہ، اگر ایک طرف تمام قدامت پسندقانون ساز ، ری پبلکن جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں، تو دوسری طرف اُن کے لبرل مدّ مقابل ڈیموکریٹک حلقے میں داخل ہوگئے ہیں۔
یہ لبرل طبقہ سوشیل سیکیورٹی، میڈی کئیر اور حکومت کی طرف سے دی گئی دوسر ی مراعات کو امریکی عوام کے ساتھ ایک ایسے مقدّس معاہدے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس کو با لکل نہیں چھیڑنا چاہئیے۔ دوسری طرف، قدامت پسند ارکان ان ضمانتوں کو امریکی مزدورو اور خاص طور پر جوان مزدورو ں کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس سے اس ملک کا مقدّس اتّحاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔چنانچہ، یہ نظریات ایک دوسرے کی ضدّ میں ہیں۔ لیکن ،اس کے باوجود اخبار سمجھتا ہے کہ کانگریس کو بالآخر ان مسائل کو حل کرنا پڑے گا جس کی سیدھی سادی وجہ حساب ہے۔ امریکی عوام کے پاس سرمائے کی محدود رقم ہے ، لہٰذا، جونہی کانگریس کو اس حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا تو وہ مالی مسئلے کی اصل جڑ یعنی اخراجات کے مسئلے سے نمٹنے میں سنجیدہ ہو جائے گی۔