’کرسچن سائنس مانٹر‘ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوںکےمعاشرے میں پھرسےمدغم ہونے کےعمل پرایک مضمون میں کہتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے یہ عمل ہمیشہ آسان نہیں رہا ہے، اور ایک رپورٹ میں ان کی مشکلات کی شدّت کو بیان کیا گیا ہے۔
پِیو تحقیقی مرکز (PEW RESEARCH CENTER) کی اس رپورٹ کےمطابق ایسے فوجیوں میں سے27 فی صد کا کہنا ہے کہ ان کے لئے فوج چھوڑنے کےبعدکا وقت دُشوار تھا ۔ جو فوجی 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعدفوج میں تھے اُن میں ایسے افراد کا تناسب 44 فی صد ہو گیا۔ یعنی، ان لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جنہوں نے ویت نام، کوریا یا دوسری عالمی جنگ میں شرکت کی تھی۔ مجموعی طور پر 32 فی صد فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لئے فوجی تجربہ تکلیف دِہ اوراذیّت ناک وقت تھا۔ یہی تناسب 9/11 کےبعد فوج میں کام کرنے والوں کے اندربڑھ کر 43 فی صد ہو گیاہے۔
اس فرق کی ایک وجہ پچھلے ایک عشرے کی فوجی سروس کی نوعیت تھی۔ نائن الیون کے بعد 16 فی صد فوجیوں کی چوٹوں کی نوعیت سنگین تھی۔
رپورٹ کےمطابق ایسےفوجیوں کو نہوں نےمحاذ جنگ پر خدمات دیں یا جنہیں ایسے لوگوں کاعلم تھا جوجنگ میں کام آئے یا لڑائی میں زخمی ہوئے، انہیں شہری زندگی میں دوبارہ داخل ہونے میں زیادہ دشواری پیش آئی۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوج دس برس سے مسلسل جنگ لڑ رہی ہےجوامریکی تاریخ میں جنگ کاطویل تریں دورہے ۔ اس کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دسیوں ہزاروں زخمی ہوئے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ ذہنی دباؤ میں ہیں یا سنگین دماغی چوٹ سے شفایاب ہونے کےعمل سے گذر رہے ہیں۔
اس وقت امریکی بالغوں کاصرف ڈیڑھ فی صد ج فوج میں ڈیوٹی دے رہاہےاور جیسے جیسےفوج کی نفری میں کمی آتی جا رہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ فوجی عملےاور وسیع ترشہری آبادی کےباہمی تعلّق میں دُوری بڑھتی جا رہی ہے۔
اس ہفتے، پرل ہاربر پر اُس جاپانی حملےکی برسی بھی تھی جِس کےبعدامریکہ بھی دوسری عالمی جنگ میں کُود پڑا تھا ۔ اس برسی کی مناسبت سے اخبار’لاس ویگس سن‘ کہتا ہے کہ 9/11 کے بعدامریکہ ایک بالکل مختلف قسم کی جنگ میں الجھ گیا ہے،ایک ایسی جنگ جو زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ، نہ تو اس کے جنگی محاذ متعیّن ہیں اور نا ہی دشمن واضح ہیں۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ امریکی عوام اس میں اسی انداز میں شریک نہیں جس طرح دوسری عالمی جنگ میں تھے ۔جو جبری بھرتی سے عبارت تھی جب کہ آج کی فوج رضاکارانہ فو ج ہے۔اس وجہ سےامریکیوں کا نہایت قلیل تناسب سمندر پار لڑائیوں میں شریک رہا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اب کی بار امریکیوں سے قربانیاں دینے کے لئے نہیں کہا گیا،بلکہ دہشت کے خلاف جنگ کو قومی قرض میں شامل کر لیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ’نایئن الیون‘ کےبعد کے ہفتوں کےدوران جس قومی وحدت کا مظاہرہ کیا گیا تھا ، اب اس کی جگہ نظریاتی تفاوت نے لے لی ہے،جس سے قومی مسائل حل کرنے کی کوئی مد دنہیں مل رہی۔
’ہیوسٹن کرانیکل‘ اخبار کا خیال ہے کہ بعض واقعات کے پیشِ نظر موجودہ وقت امی گریشن قوانین میں معتدد اصلاحات کرنے کا شائد بہترین وقت ہے۔ اخبارکہتا ہےکہ میکسکو کی سرحد سے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے پرگرفتار ہونےوالوں کی تعداد سنہ 1970 کی دہائی کے مقابلے میں پچیس فی صد سے زیادہ کی ڈرامائی کمی واقع ہو ئی ہے، سنہ2011 کے مالی سال کے دوران اس طرح غیرقانونی طور پرپکڑے جانے والے ایسے لوگوں کی تعداد سوا تین لاکھ سے ذرا زیادہ تھی جو سنہ 2006 کے مقابلے میں بہت کم ہے، جب ناجائز طور پرسرحد عبور کرنے والوں کی تعداد 16 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔سرحد پر اس طرح جتنے لوگ پکڑے گئے تھے اُن میں سے کم از کم 90 فی صد کا تعلّق میکسیکو سے تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے لوگ امریکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن، دونوں ملکوں کےاعدادو شمارسے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ آنے والوں کی تعدادکم تھی اور میکسکو واپس جانے والو ں کی زیادہ ۔ امریکہ میں جوغیرملکی ناجائز طور پرمقیم ہیں، اخبار کے بقول، ان کی تعداد ایک کروڈ سےزیادہ ہے، جن میں سے دو تہائی دس سال سے زیادہ عرصے سے یہاں ہیں اور اُن میں سے نصف کےنابالغ بچے بھی ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: