امریکہ نے لیفٹیننٹ جنرل جان مک نکولسن کو افغانستان میں بین الاقوامی افواج کا نیا کمانڈر نامزد کیا ہے جو کہ سینیٹ کی توثیق کے بعد جنرل جان کیمبل کی جگہ یہ ذمہ داری سنبھالیں گے۔
پینٹاگان کے ترجمان کے مطابق جنرل نکولسن پہلے بھی افغانستان میں مختلف عہدوں پر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں اور انھیں یہاں امریکی مشن کی اہمیت اور پیچیدگیوں کا بخوبی اندازہ ہے۔
جنرل کیمبل گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ فرائض انجام دیتے آ رہے ہیں اور جلد ہی وہ عہدے سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی کمان کی تبدیلی ایک ایسے وقت ہونے جا رہی ہے جب طالبان کی کارروائیوں کے علاوہ یہاں شدت پسند گروپ داعش نے بھی اپنے قدم جمانا شروع کر دیے ہیں۔
2001ء میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے والی امریکی اور دیگر بین الاقوامی افواج اپنا لڑاکا مشن مکمل کر کے 2014ء کے اواخر میں یہاں سے جا چکی ہیں اور اب تقریباً 12 ہزار غیر ملکی فوجی جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے، یہاں مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کرنے کے لیے موجود ہیں۔
گزشتہ سال کے اواخر میں طالبان نے اپنی مہم کو تیز کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں اپنا اثر ورسوخ بڑھایا جب کہ پاکستانی سرحد کے قریب واقع مشرقی صوبوں میں داعش نے جڑ پکڑنا شروع کی۔
اس ساری صورتحال میں افغان سکیورٹی فورسز کی عسکریت پسندوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی کھل کر سامنے آ گئی اور متعدد بار انھیں بین الاقوامی فورسز کو مدد کے لیے بلانا پڑا۔
پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور سینیٹ کے موجودہ رکن عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئے امریکی جنرل کو افغانستان میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ماضی کے مقابلے میں افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی تعداد بھی بہت کم ہے اور ایسے میں جب حکومت کی عملداری بھی پورے ملک میں قائم نہ ہو تو نئے کمانڈر کے لیے یہ صورتحال ابتلا کا باعث بن سکتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی بھی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو متاثر کرتی رہی ہے۔
اسلام آباد، کابل سے یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنی جانب سرحد کی نگرانی کے نظام کو مؤثر بنائے تاکہ عسکریت پسندوں کی سرحد کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
پاکستان کی عسکری قیادت اس ضمن میں افغان ہم منصبوں کے علاوہ امریکی کمانڈروں سے بھی رابطے میں رہی ہے۔