رسائی کے لنکس

امریکی فوجی افسران کے اسکینڈلز کی وجوہات جاننے کی کوششیں


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

فوج کے ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

حال ہی میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس کے معاشقے کا راز افشاء ہوا اور انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ اسکینڈل یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر، جنرل جان ایلن بھی اس میں الجھ گئے ہیں۔ امریکی فوج کے افسروں کی جنسی بے اعتدالیوں، غلط فیصلوں اور مجرمانہ حرکتوں کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں اور تجزیہ کار یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس خراب طرزِ عمل کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔

گذشتہ سال کے دوران امریکی فوج کے کئی سینیئر افسروں کے خلاف مختلف قسم کے جنسی جرائم کی تفتیش ہوئی ۔ جس روز جنرل پیٹریاس کے اسکینڈل میں جنرل ایلن کے پھنسنے کی خبر آئی، اسی روز یہ خبر بھی ملی کہ چار ستاروں والے ایک سابق جنرل ولیم ’’کِپ‘‘ وارڈ کا عہدہ گھٹا دیا گیا ہے۔ یہ جنرل افریقہ میں امریکی فوجوں کی کمان کر چکے ہیں، اور ان کی تنزلی کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انھوں نے سرکاری پیسے، فوجی ایئر کرافٹ اور عملے کا غلط استعمال کیا تھا۔

ڈیوڈ میکس ویل فوج کے ریٹائرڈ کرنل ہیں اور آج کل جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج کل بہت زیادہ جانچ پڑتال ہوتی ہے، اور ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اطلاعات ہماری دسترس میں ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ چیزیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ ہو رہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اب بہت زیادہ چیزیں کھل کے سامنے آ جاتی ہیں۔‘‘

فوج کے ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

جنرل جان ایلن کے خلاف اس لیے تفتیش ہو رہی ہے کہ ان کے ممکنہ طور پر ایک عورت کے ساتھ نا مناسب رابطے تھے۔

کوری شیک ویسٹ پوائنٹ کی یو ایس ملٹری اکیڈمی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سٹینفورڈ یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ کی جنگوں کے خون خرابے سے سپاہیوں اور ان کے اہلِ خاندان کی زندگیوں پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ ان کے مطابق ’’بہت سے غلط فیصلے جو دیکھنے میں آ رہے ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ بالکل عاجز آ چکے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے ہم نے ان پر بہت بوجھ ڈال رکھا ہے اور انہیں سانس لینے کی مہلت نہیں ملتی کہ وہ اپنے مسائل پر توجہ دیں۔‘‘

دوسرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کی پوری فوج رضاکاروں پر مشتمل ہے اور کُل آبادی کا ایک فیصد ہے۔ آبادی کے وہ لوگ جو وردیوں میں ہیں، بقیہ سویلین آبادی سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ فوج کے اعلیٰ افسروں کے طرزِ زندگی سے بڑے طرزِ عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔

فوج کے ریٹائرڈ کرنل جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ڈیوڈ میکس ویل کہتے ہیں کہ ’’یہ کہنا صحیح نہیں ہو گا کہ اس سطح پر فوج کے اعلیٰ کمانڈر اپنے عہدوں کے ٹھاٹ باٹ اور پُر تعیش زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یقیناً کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے اور آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن فوج کے افسروں کی بہت بڑی اکثریت کی توجہ اپنے مشن پر ہوتی ہے۔

یو ایس ملٹری اکیڈمی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کوری شیک کہتی ہیں کہ شاذو نادر کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ کمانڈر یہ سمجھنے لگیں کہ ضابطۂ اخلاق کو نظر انداز کرنا ان کا حق ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ا ن میں سے کچھ لوگ جنہیں گذشتہ دس برسوں میں کئی بار میدانِ جنگ میں بھیجا گیا ہے اور وہ ملک کے لیے انتہائی مشکل اور خطرناک کام کرتے رہے ہیں، بعض اوقات یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ملک کے لیے ان کے سوا کوئی اور اتنا اہم کام نہیں کر رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ اندازِ فکر خاصا خطرناک ہے۔ ہم ایسی فوج نہیں چاہتے جو خود کو دوسروں سے مختلف یا بہتر سمجھتی ہو۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب جب کہ فوجی افسروں پر زیادہ کڑی نظر رکھی جا رہی ہے، سینیئر لیڈروں کو اپنے طرزِ عمل کے بارے میں اوربھی زیادہ چوکنا رہنا پڑے گا۔
XS
SM
MD
LG