امریکی ایوانِ نمائندگان نے جمعے کے روز ایک قانونسازی کی منظور دی، جس کی رو سے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے اہل خانہ کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ دہشت گردی کی مبینہ حمایت پر سعودی عرب کی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتے ہیں، باوجود اس بات کے کہ وائٹ ہاؤس نے ایسے بِل کو ویٹو کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
سینیٹ نے دہشت گردی کے مربیوں کے خلاف انصاف کی شق کی منظوری مئی میں دی تھی، حالانکہ سعودی عرب نے اس کی مخالفت کی تھی، جو ا مریکہ کا ایک کلیدی اتحادی ہے۔
گیارہ ستمبر کی دہشت گردی میں ملوث 19 فضائی ہائی جیکروں میں سے 15 سعودی شہری تھی، تاہم سعودی عرب اِن الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ اِن دہشت گرد حملوں میں اُس نے کوئی کردار ادا کیا یا اُن تنظیموں کی حمایت کی تھی جن کا دہشت گرد گروپوں سے رابطے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس قانون سازی کی مخالفت اس تشویش کی بنیاد ہر کی جا رہی ہے کہ اس معاملے پر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی ہے، بیرونِ ملک امریکی شہریوں کو قانونی خدشات لاحق ہوسکتے ہیں اور بیرونی دنیا میں امریکہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے ویٹو پر حاوی پانے کے لیے ایوان ِنمائندگان اور سینیٹ کے ارکان کی کم از کم دو تہائی کی حمایت درکار ہوگی۔
یہ بِل نیو یارک کے رکن ِکانگریس جیروڈ نیدلر نے پیش کیا تھا، جسے ہلاک شدگان کے اہل خانہ کی ٹھوس حمایت حاصل ہے۔ نیدلر نے کہا ہے کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ حملوں کی پندرہویں برسی سے پہلے اس پر ووٹنگ ہوجائے، جس میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے، جب ہائی جیک ہونے والے مسافر طیارے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگان سے کچھ پہلے واشنگٹن کے باہر، اور پینسلوانیا کے شہر شینکس ویل کے کھیتوں پر گر کر تباہ ہوئے۔
ایوان میں پیش ہونے سے دو ماہ قبل کانگریس نے کانگریسی رپورٹ میں سے 28 ڈی کلاسی فائیڈ صفحات جاری کیے گئے، جن کا تعلق حملوں کے بارے میں سعودی رابطوں سے تھا۔ اِن کاغذات سے اُن اطلاعات میں مدد نہیں ملتی ہے جس کا پتا دیگر رپورٹوں اور دستاویزات سے چلتا ہے۔