رسائی کے لنکس

افغان طالبان نے داعش کے آٹھ اہم رہنماؤں کو ہلاک کر دیا


افغانستان طالبان سیکیورٹی اہل کار ایک بکتر بند گاڑی پر گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
افغانستان طالبان سیکیورٹی اہل کار ایک بکتر بند گاڑی پر گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

افغانستان میں امریکہ کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ کہتے ہیں کہ ’’افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی شاخ، آئی ایس - خراسان کے خلاف طالبان کی "کامیاب" کارروائیوں نے اس کی صلاحیت کو "نمایاں طور پر متاثر " کیا ہے اور شہریوں کے خلاف اس کے حملوں میں بڑے پیمانے پر مسلسل کمی واقع ہوئی ہے‘‘۔

ٹام ویسٹ نے اس بارے میں تفصیلات منگل کو واشنگٹن میں اسٹمسن سنٹر تھنک ٹینک میں ایک سیمینار کے دوران پیش کیں۔

ویسٹ نے آئی ایس خراسان کا مخفف استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں(طالبان) نے ایک جارحانہ کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے جس نے آئی ایس خراسان کی صلاحیت کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔میرے خیال میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2023 کے اوائل سے افغانستان میں طالبان کے حملوں میں آئی ایس خراسان کے کم از کم آٹھ اہم رہنماؤں کو ختم کر دیا گیا ہے جن میں سے کچھ بیرونی سازش کے ذمہ دار تھے۔‘‘

ویسٹ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں افغان شہریوں کے خلاف حملوں میں ’’مسلسل کمی‘‘ ہوئی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’ہزارہ برادری کے خلاف بڑے پیمانے پر خوفناک حملے ہوئے، لیکن اس کے بعد اس قسم کے حملے نہیں ہوئے۔ ‘‘

قندھار میں طالبان افغانستان کے اقتدار پر اپنے قبضے کی دوسری سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں۔ 15 اگست 2023
قندھار میں طالبان افغانستان کے اقتدار پر اپنے قبضے کی دوسری سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں۔ 15 اگست 2023

لیکن امریکی نمائندے نے خبردار کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی علاقائی استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ویسٹ کہتے ہیں کہ’’ ہم نے ٹی ٹی پی کے حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے اور ان حملوں کا ہدف پاکستان ہے۔

اس عسکریت پسند گروپ کو پاکستانی طالبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور امریکہ نے اس گروپ کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ یہ عسکریت پسند گروپ پاکستان پر دہشت گرد حملے کر رہا ہے اور افغانستان میں موجود اپنے ٹھکانوں سے کارروائیاں کرتا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں میں اس وقت سے تیزی آئی ہے جب دو سال قبل کابل میں طالبان نے اقتدار سنبھالا۔اب تشدد روزمرہ کا معمول بن چکا ہے اور اب تک مبینہ طور پر 1500 سے زیادہ پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں عام شہری اور سکیورٹی فورسز کے ارکان بھی شامل ہیں۔ ان کے یہ حملے زیادہ تر افغان سرحد کے قریب یا سرحد پر واقع اضلاع میں کیے گئے ہیں ۔

ٹی ٹی پی کی قیادت نے افغان طالبان کے کلیدی رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ سے وفاداری کا عہد کیا ہے۔ اس عسکریت پسند گروپ کی تشکیل 2007 میں پاکستانی سرحدی علاقوں میں ہوئی اور اس نے طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکہ کی زیر قیادت نیٹو فوجیوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی۔

دسمبر 2011 کی اس تصویر میں پاکستانی طالبان ماسک پہن کر چھاپہ مار حملوں کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
دسمبر 2011 کی اس تصویر میں پاکستانی طالبان ماسک پہن کر چھاپہ مار حملوں کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

تھامس ویسٹ کہتے ہیں کہ ’’وہ (ٹی ٹی پی) جنگ کے دوران طالبان کے اتحادی بن گئے۔ وہ مالی معاون، لاجسٹک معاون اور آپریشنل اتحادی بھی تھے۔ میرے خیال میں ان کے درمیان کافی قریبی تعلقات ہیں۔‘‘

امریکی نمائندے نے پاکستان کے ان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ٹی ٹی پی کے یہ حملے افغانستان کے طالبان حکام کی منظوری سے ہو رہے ہیں۔

ویسٹ کا کہنا ہے جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا طالبان پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں کی حمایت کر رہے ہیں تو یہ کہنا مشکل ہے اور جس کے بارے میں میں عوامی سطح پر بات کرنے کے قابل ہوں یہ اس حد سے باہر ہے۔یہ کوئی راز نہیں ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو اس وقت پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلق پر حاوی ہے۔‘‘

طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی سمیت کسی بھی گروپ کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رہے ہیں جس سے پاکستان کو یا بڑے پیمانے پر خطے کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہو۔

ادھر اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے باضابطہ طور پر کابل کے ساتھ ایسے شواہد شیئر کیے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں اور جنگجوؤں کی افغانستان میں موجودگی اور پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے اس ملک کی سر زمین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں افغانستان سے کشیدگی پاکستان کے اس فیصلے کی جزوی وجہ بنی ہے جس کے تحت پاکستان نے ایک ہفتہ قبل خشکی میں گھرے ملک افغانستان کے ساتھ مرکزی سرحدی گزر گاہ کو بند کر دیا ہے۔

ویسٹ نے منگل کے روز ہونے والے اس سیمینار میں توجہ دلائی کہ القاعدہ گروپ 1996 میں سوڈان سے افغانستان منتقل ہوا تھا اور اب القاعدہ کے افغانستان اور پاکستان سے امریکہ کے لیے خطرہ بننے کی صلاحیت اپنی کمترین سطح پر ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لی تھیں ۔ اس سے چند روز قبل طالبان باغیوں نے کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت سے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا سے افغان جنگ میں تقریباً دو دہائیوں پر محیط امریکی شرکت کا خاتمہ ہو گیاتھا

(ایاز گل ،وائس آف امریکہ)

فورم

XS
SM
MD
LG