امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے ڈرون حملوں کو نہ صرف امریکہ بلکہ باقی دنیا میں بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ جو لوگ ڈرون حملوں کے حامی ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون حملے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے جبکہ ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
امریکہ ڈرون حملوں کو القاعدہ جیسے دہشت گرد عناصر کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
امریکہ میں ایک تنظیم کی جانب سے کیا گیا ایک حالیہ جائزہ بتاتا ہے کہ 2004ء کے بعد سے اب تک پاکستان اور یمن میں تقریبا تین ہزار دو سو اڑتیس شدت پسند مارے گئے۔ جبکہ ان ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد تین سو اڑسٹھ بتائی جاتی ہے۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے منسلک پروفیسر کرسٹوفر کوکر نے حال ہی میں اسی موضوع پر ایک کتاب ’’اکیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی جنگ لڑنے کے طریقے اور سوچ کس طرح بدل رہی ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ اس وقت دنیا میں ڈرون کے چھ امریکی فوجی اڈے ہیں۔ ان میں سے چار امریکہ میں، ایک جرمنی میں اور ایک جنوبی کوریا میں ہے ۔۔۔ جنوبی کوریا کے اڈے سے زیادہ تر ڈرون حملے لانچ کیے جاتے ہیں۔ بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دن پر دن گزر جاتے ہیں اور ڈرون حملہ کرنے کا کوئی حکم نہیں ہوتا اور بعض اوقات اچانک ہی ڈرون حملہ کرنے کا حکم آجاتا ہے۔‘‘
اتوار کے روز نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے امریکہ کو اپنی فضائی حدود اس شرط پر استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے کہ بدلے میں امریکہ پاکستان کے دشمنوں پر ڈرون حملے کرے گا۔ پاکستانی حکومت نے اس الزام کی پرزور تردید کی ہے جبکہ امریکی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ عارف نیازی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’یہ وحشیانہ جارحیت ہے۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے تعلق رکھنے والے ماہر مارکو روسینی کہتے ہیں کہ ان ڈرون حملوں کا قانونی جواز غیر واضح اور دھندلا ہے۔ ان کے الفاظ، ’’آپ جانتے ہیں کہ زیادہ تر ڈرون حملے سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز کا ایک حصہ ہیں۔ لہذا ہمیں معلوم نہیں کہ ان کی اس فہرست میں مطلوبہ افراد کو کس بنیاد پر، کب اور کیوں شامل کیا جاتا ہے؟‘‘
ڈرون حملوں کے حامی ان حملوں کی وجہ سے چند بڑے شدت پسندوں کی موت کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ القاعدہ کے بڑے راہنما ابو یحیی ال لبی، جو گذشتہ برس پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا۔ لیکن یہ ڈرون حملے اُن امریکی شہریوں پر استعمال کرنے کے حوالے سے جن پر شدت پسند گروپوں میں شمولیت کا اندیشہ ہو، سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سی آئے اے کے سربراہ جان برینن نے اس حوالے سے فروری میں سینیٹ سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ، ’’وہ امریکی جو اس طرح کی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ ہمارے دشمنوں میں سے ہیں۔ امریکہ اپنے شہریوں کی جانوں کی حفاظت اور امریکہ کے دشمنوں کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد یہ ڈرون حملے خطے میں دہشت گردوں کے خلاف مغرب کا ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکہ ڈرون حملوں کو القاعدہ جیسے دہشت گرد عناصر کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
امریکہ میں ایک تنظیم کی جانب سے کیا گیا ایک حالیہ جائزہ بتاتا ہے کہ 2004ء کے بعد سے اب تک پاکستان اور یمن میں تقریبا تین ہزار دو سو اڑتیس شدت پسند مارے گئے۔ جبکہ ان ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد تین سو اڑسٹھ بتائی جاتی ہے۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے منسلک پروفیسر کرسٹوفر کوکر نے حال ہی میں اسی موضوع پر ایک کتاب ’’اکیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی جنگ لڑنے کے طریقے اور سوچ کس طرح بدل رہی ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ اس وقت دنیا میں ڈرون کے چھ امریکی فوجی اڈے ہیں۔ ان میں سے چار امریکہ میں، ایک جرمنی میں اور ایک جنوبی کوریا میں ہے ۔۔۔ جنوبی کوریا کے اڈے سے زیادہ تر ڈرون حملے لانچ کیے جاتے ہیں۔ بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دن پر دن گزر جاتے ہیں اور ڈرون حملہ کرنے کا کوئی حکم نہیں ہوتا اور بعض اوقات اچانک ہی ڈرون حملہ کرنے کا حکم آجاتا ہے۔‘‘
اتوار کے روز نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے امریکہ کو اپنی فضائی حدود اس شرط پر استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے کہ بدلے میں امریکہ پاکستان کے دشمنوں پر ڈرون حملے کرے گا۔ پاکستانی حکومت نے اس الزام کی پرزور تردید کی ہے جبکہ امریکی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ عارف نیازی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ ان کے الفاظ، ’’یہ وحشیانہ جارحیت ہے۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے تعلق رکھنے والے ماہر مارکو روسینی کہتے ہیں کہ ان ڈرون حملوں کا قانونی جواز غیر واضح اور دھندلا ہے۔ ان کے الفاظ، ’’آپ جانتے ہیں کہ زیادہ تر ڈرون حملے سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز کا ایک حصہ ہیں۔ لہذا ہمیں معلوم نہیں کہ ان کی اس فہرست میں مطلوبہ افراد کو کس بنیاد پر، کب اور کیوں شامل کیا جاتا ہے؟‘‘
ڈرون حملوں کے حامی ان حملوں کی وجہ سے چند بڑے شدت پسندوں کی موت کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ القاعدہ کے بڑے راہنما ابو یحیی ال لبی، جو گذشتہ برس پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا۔ لیکن یہ ڈرون حملے اُن امریکی شہریوں پر استعمال کرنے کے حوالے سے جن پر شدت پسند گروپوں میں شمولیت کا اندیشہ ہو، سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سی آئے اے کے سربراہ جان برینن نے اس حوالے سے فروری میں سینیٹ سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ، ’’وہ امریکی جو اس طرح کی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ ہمارے دشمنوں میں سے ہیں۔ امریکہ اپنے شہریوں کی جانوں کی حفاظت اور امریکہ کے دشمنوں کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد یہ ڈرون حملے خطے میں دہشت گردوں کے خلاف مغرب کا ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔