امریکہ نے حکومتِ شام کی جانب سے شامی بلاگر اور سرگرم کارکن، باسل خرطبیل سفدی کو موت کی سزا دیے جانے کی مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں، امریکی محکمہٴ خارجہ نے ’’شامی حکومت کی طرف سے مظالم پر مبنی اقدامات جاری رکھنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے، جن میں اذیت دینا اور ماورائے عدالت سزا کے اقدامات شامل ہیں‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت ہی ’’اُن عام تکالیف، ہلاکتوں اور تباہی‘‘ کی ذمے دار ہے، ’’جو اُس نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
خرطبیل کی بیوہ، نورا غازی سفدی نے اس ہفتے کے اوائل میں فیس بک پر تحریر کیا تھا کہ اُنھوں نے اس بات کی تصدیق کرلی ہے کہ سکیورٹی اداروں نے خرطبیل کو اکتوبر 2015ء میں پھانسی دے دی تھی، جس سے قبل قید خانے میں اُنھیں اذیت کا شکار بنایا گیا تھا۔
غازی نے منگل کی رات گئے فیس بک پر شائع کیے گئے ایک پیغام میں یہ بات نہیں بتائی آیا اُنھوں نے اپنے شوہر کی ہلاکت کی تصدیق کس طرح سے کی ہے۔
خرطبیل فلسطینی نژاد شامی تھے، جنھوں نے سافٹ ویئر میں شہرت حاصل کی تھی۔ اُنھیں پانچ برس قبل دمشق سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ہلاکت کے وقت، خرطبیل کی عمر 34 برس تھی۔ وہ دمشق میں سافٹ ویئر تخلیق کرنے کا ورکشاپ چلاتے تھے، جس سے شامی حکام خوب واقف تھے۔ وہ عربی کے تخلیقی کام کے سرکردہ ماہر تھے۔ وہ خاص طور پر ’کوڈنگ‘ اور قانونی حقوق کے فریم ورک میں شہرت رکھتے تھے۔ اُن کے ایک لبنانی دوست کے مطابق، وہ ’’سافٹ ویئر‘‘ اور تخلیقی کام کے ماہر تھے۔
ایک بیان میں، ’کریئیٹو کامنز‘ کے اُن کے ادارے نے اُن کی موت کی تصدیق کی ہے۔ ادارے نے بتایا ہے کہ اُنھیں مارچ 2012ء میں دمشق کی ایک سڑک سے حراست میں لیا گیا تھا، جب فوج کی جانب سے گرفتاریاں روز کا معمول تھیں۔